Maktaba Wahhabi

418 - 692
عَاشُورَائَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِي قَبْلَہُ‘ ’’عرفہ کے دن کا روزہ،گذشتہ اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور دس محرم کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ [1] 2: عاشورہ کا روزہ:یعنی محرم کے نویں اور دسویں دن کا روزہ بھی مستحب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا:’فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ۔إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ‘ ’’ان شاء اللہ ہم اگلے سال نو محرم کا(بھی)روزہ رکھیں گے۔‘‘ [2] 3: شوال کے چھ روزے بھی مستحب ہیں:اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ‘ ’’جس نے رمضان کے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزے رکھے۔‘‘[3] 4: ماہ شعبان کے پہلے پندرہ دنوں میں روزے رکھنا مستحب ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ،وَمَا رَأَیْتُہُ فِي شَھْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِي شَعْبَانَ‘ ’’رمضان المبارک کے علاوہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان کے ایام سے زیادہ کسی اور مہینہ میں روزے رکھتے بھی میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘ [4] 5: ذو الحجہ کے پہلے عشرے کے روزے رکھنا مستحب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’مَا الْعَمَلُ فِي أَیَّامٍ أَفْضَلُ مِنْھَا فِي ھٰذِہِ،قَالُوا:وَلَا الْجِھَادُ؟ قَالَ:وَلَا الْجِھَادُ،إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ یُخَاطِرُ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَمْ یَرْجِعْ بِشَيْئٍ‘ ’’ذو الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن نہیں جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو۔لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔فرمایا:’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں،الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد میں چلا جائے اور پھر(ان دونوں میں سے)کچھ واپس نہ لائے۔(شہید ہو جائے)‘‘ [5]
Flag Counter