Maktaba Wahhabi

150 - 692
کمزوری دکھانے لگتا ہے تو اسے ملامت کرتا ہے،پھروہ کام کرتا ہے جن میں نفس کوتاہی کر رہا یا کمزوری دکھا رہا تھا۔یہ تادیب مسلسل جاری رہتی ہے،یہاں تک کہ اس کا نفس مطمئن اور پاک و طاہر ہو جاتا ہے اور یہی وہ مجاہدئہ نفس ہے جو دراصل مطلوب ہے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں:﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں،ہم ضرور انھیں اپنے راستے دکھاتے ہیں(توفیق سے نوازتے ہیں)اور بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘[1] ایک مسلمان جب اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے تاکہ یہ نفس پاک،طاہر اور مطمئن بن جائے اور اللہ کے اعزازات و اکرامات حاصل کرنے کا مستحق قرار پائے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہی صالحین،مومنین اور نیک لوگوں کا راستہ ہے اور وہ ان کے نقشِ قدم پر چلتا رہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے،جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ’أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُونَ عَبْدًا شَکُورًا‘ ’’کیا میں پسند نہ کروں کہ(اللہ کا)شکر گزار بندہ بن جاؤں ؟‘‘ [2] قسم ہے ربِّ قدوس کی!اس سے بڑھ کر اور مجاہدہ کیا ہو سکتا ہے!! سیدنا علی رضی اللہ عنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بابت گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ کی قسم!میں نے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے،آج میں ان کے مشابہ کوئی نہیں دیکھ رہا۔وہ لوگ صبح کو اٹھتے تو پراگندہ حال،غبار آلود اور زرد رنگ ہوتے اور رات کے وقت سجدہ و قیام میں ہوتے اور اللہ کی کتاب کی تلاوت فرماتے،کبھی کھڑے ہیں تو کبھی پیشانی کے بل سجدہ میں گرے ہیں۔بوقتِ ذکر الٰہی اس طرح جھک جاتے جس طرح ہوا سے پودا جھک جاتا ہے اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتیں حتی کہ کپڑے نم آلود ہو جاتے۔[3] سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو میں ایک دن بھی زندہ رہنا پسند نہ کرتا۔دوپہر کے وقت اللہ کے لیے پیاسا ہونا،آدھی رات کے وقت اس کے لیے سجدہ کرنا اور ایسے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنا جو صاف ستھرے کلام کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے اچھے پھل پسند کیے جاتے ہیں۔[4] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھ سکنے پر اپنے نفس کو عتاب کیا اور اس کی پاداش میں دو لاکھ مالیت درہم کی زمین صدقے میں دے دی۔[5]
Flag Counter