Maktaba Wahhabi

130 - 692
((مَثَلُ ہٰذِہِ الْأَمَّۃِ کَمَثَلِ أَرْبَعَۃِ نَفَرٍ:رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا وَّ عِلْمًا فَہُوَ یَعْمَلُ بِعِلْمِہِ فِي مَالِہِ،یُنْفِقُہُ فِيحَقِّہِ،وَ رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ عِلْمًا وَّ لَمْ یُؤْتِہِ مَالًا فَہُوَ یَقُولُ:لَوْ کَانَ لِي مِثْلُ ہٰذَا،عَمِلْتُ فِیہِ مِثْلَ الَّذِي یَعْمَلُ،قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:فَہُمَا فِي الْأَجْرِ سَوَائٌ،وَ رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا وَّلَمْ یُؤْتِہِ عِلْمًا فَہُوَ یَخْبِطُ فِي مَالِہِ،وَ یُنْفِقُہُ فِي غَیْرِ حَقِّہِ،وَ رَجُلٌ لَّمْ یُؤْتِہِ اللّٰہُ عِلْمًا وَّ لَا مَالًا فَہُوَ یَقُولُ:لَوْ کَانَ لِي مِثْلُ ہٰذَا عَمِلْتُ فِیہِ مِثْلَ الَّذِي یَعْمَلُ،قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:فَہُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَائٌ)) ’’میری امت کی مثال چار آدمیوں کی طرح ہے:ایک وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے علم و مال عطا کیا ہے،وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے،یعنی اسے جائز مصارف میں خرچ کرتا ہے،دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے علم تو دیا ہے،مال نہیں دیا،وہ کہتا ہے:اگر میرے پاس بھی اسی طرح مال ہوتا تو میں بھی اس کی طرح اس(کو جائز مصارف میں خرچ کرنے)میں(اپنے علم کے مطابق)عمل کرتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ دونوں ثواب میں برابر ہیں ‘‘۔ایک اور آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہے مگر علم نہیں دیا،وہ اپنے مال میں بھٹک رہا ہے،یعنی اسے ناحق خرچ کرتا چلا جارہا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے علم دیا ہے نہ مال،وہ کہتا ہے اگر میرے پاس بھی اس طرح کا مال ہوتا تو میں بھی اس کی طرح کے(برے)کارنامے سرانجام دیتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ [1] اس حدیث سے واضح ہوا کہ محض نیت صالحہ سے ایک شخص کو عملِ صالح کا ثواب ملا اور دوسرے کو بری نیت کی وجہ سے عملِ فاسد کرنے والے کا گناہ حاصل ہوا،یہ نیت کی کرشمہ سازی ہی تو ہے۔ سفرِ تبوک سے مدینہ واپس آتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((إِنَّ بِالْمَدِینَۃِ أَقْوَامًا مَّا سِرْتُمْ مَّسِیرًا وَّلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوا مَعَکُمْ قَالُوا:یَا رَسُولَ اللّٰہِ!وَ ہُمْ بِالْمَدِینَۃِ؟ قَالَ:’وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ،حَبَسَہُمُ الْعُذْرُ)) ’’بے شک مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے جتنا بھی سفر کیا اور جو بھی وادی طے کی وہ تمھارے ساتھ شریک رہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)!مدینہ میں ہونے کے باوجود؟ آپ نے فرمایا:(ہاں)مدینہ میں ہونے کے باوجود(کیونکہ)انھیں(شرعی)عذر نے(ہمارے ساتھ آنے سے)روکے رکھا(ورنہ ان کی نیت تو تھی۔)[2] ’’حسن نیت‘‘ نے غیر غازی کو غازی کا مقام دلا دیا ہے اور غیر مجاہد کو مجاہد کے درجہ میں لاکھڑا کیا ہے۔ اسی طرح فرمانِ نبوی ہے:’إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ،فَقِیلَ:
Flag Counter