Maktaba Wahhabi

105 - 692
ہوں۔‘‘[1] مزید فرمایا:’إِنِّي لَأَثْأَرُ لِأَوْلِیَائِي کَمَا یَثْأَرُ اللَّیْثُ الْحَرْبُ‘’’بے شک میں اپنے دوستوں کا انتقام لیتا ہوں،جس طرح لڑاکا شیر انتقام لیتا ہے۔‘‘[2] نیز فرمایا:’إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ مَنْ لَّوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ‘ ’’بے شک اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ پر قسم ڈالیں(اور کوئی بات کہیں)تو وہ(اللہ تعالیٰ)اسے پورا کر دیتا ہے۔‘‘[3] حدیثِ نبوی ہے:’لَقَدْ کَانَ فِیمَا قَبْلَکُمْ مِّنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ،فَإِنْ یَّکُنْ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّہُ عُمَرُ‘ ’’پہلی اقوام و ملل میں کچھ لوگ ’’ملہم‘‘(جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص الہام ہوتا ہے)ہوتے تھے۔میری امت میں اگر کوئی(ملہم)ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘[4] فرمانِ نبوی ہے:’کَانَتِ امْرَأَۃٌ تُرْضِعُ ابْنًا لَّہَا مِنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ،فَمَرَّ بِہَا رَجُلٌ رَّاکِبٌ ذُوشَارَۃٍ،فَقَالَتْ:اَللّٰہُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَہُ،فَتَرَکَ ثَدْیَہَا وَ أَقْبَلَ عَلَی الرَّاکِبِ،فَقَالَ:اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَہُ‘ ’’ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اس کے پاس سے ایک خوش منظر سوار گزرا۔(اسے دیکھ کر)کہنے لگی:اے اللہ!میرے بچے کو اس جیسا بنا۔پستان چھوڑ کر اس بچے نے کہا:اے اللہ!مجھے ایسا نہ بنانا۔‘‘[5] بچے کے بولنے میں اس کی اور اس کی ماں دونوں کی کرامت ہے۔ اسی طرح زاہد و عابد جریج رحمہ اللہ(ولی)کے واقعہ میں ہے کہ ماں نے کہا:اے اللہ!اسے موت سے پہلے فاحشہ عورتوں کا منہ دکھانا۔اللہ تعالیٰ نے ماں کی دعا قبول کی۔یہ اس کی کرامت تھی،چنانچہ ایک فاحشہ کی طرف سے جریج پر الزام تراشی ہوئی تو اس نے نومولود بچے سے کہا:بتا!تیرا باپ کون ہے۔بچے نے کہا:بکریوں کا چرواہا۔‘‘[6] اس میں جریج(ولی)کی کرامت ہے کہ دودھ پیتے بچے نے اس کی صفائی دی۔
Flag Counter