طالبِ علمی کے ابتدائی دور میں جس قدر علومِ درسیہ و متداولہ پڑھے تھے، قرآن و حدیث کے مسلسل گہرے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں اخلاص نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ خواہشاتِ نفسانی کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ کیونکہ علمِ خالص کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ اشتغال کے وقت دل کلی طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اور یہ بات مجھے کسی علمِ آلی، درسی یا فن متداول میں حاصل نہ ہوئی۔ بلکہ میرا دل تو ہر رادی میں پریشان اور ہر صحرا میں سرگرداں رہتا تھا۔ صرف کتاب اللہ کے علم ہی میں مجھے جمعیتِ خاطر میسر آئی۔
﴿ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾[1]
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رؤف و رحیم کی خدمت مجھ سے بار بار عمل میں آئی اور میں نے مختلف پیراؤں میں فقہِ کتاب و سنت کو اہل عصر کے سامنے پیش کیا ہے۔
﴿ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾[2]
اِسی طرح سنتِ مطہرہ کے صحائف کے علاوہ اور کسی علم میں میں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ کیونکہ صحائف سنت کی مزادلت سے بصیرت تامہ حاصل ہوتی ہے۔ ومن اتعب نفسه في جمع العلوم من غير ان ينظر في دلالتها علي الله عزوجل لانه هو المقصود الاعظم بها حجب عن مواضع الدلالة الحق فيها علي الحق جل و علا
بہیچ کار کتب خوانیت نمی آید
زجمعِ خاطرِ خود نسخہِ فراہم کن
میں جب اپنے اعمال پر غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینی طور پر مجھے ناپسند فرماتا ہے۔ اسی لیے کہ کتاب و سنت کے علم کے باوجود
|