Maktaba Wahhabi

89 - 384
اسی قبیل سے ہیں۔ لیکن مردم اندر حسرت فہم درست اینکہ میگویم بقدر فہم تست میں خوب جانتا ہوں کہ کسی امام کا کوئی مقلد بھی ایسا نہیں ہے، جو کسی مسئلہ میں بھی امام کے مذہب و اقوال کی مخالفت نہ کرتا ہو، خواہ مسئلہ کا تعلق اصول سے ہو یا فروع سے، جب یہ بات ہر مذہبِ خاص کے مقلدوں میں موجود ہے، اور اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو پھر مجھ پر یا کسی اور متبع پر کوئی الزام کب عائد ہو سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ کسی نے ایک دو مسئلوں میں اپنے امام کے مذہب کے خلاف کیا اور کسی نے پانچ دس مسئلوں میں۔ تو یہ تفاوت فقط قلت و کثرت کا ہے، تقلید و اتباع کا نہیں۔ مثلاً شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے سماعِ موتیٰ میں مذہبِ شافعی اختیار کیا ہے اور جمہور حنفیہ کے مذہبِ عدمِ سماع موتیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح وہ مشرب میں قادری الطریقہ تھے۔ حالانکہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ حنبلی المذہب تھے۔ یا اس کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ حنفیہ کی ایک جماعت شیخ فی الدین بن عربی کی ولایت بلکہ قطبیت کی معتقد ہے۔ حالانکہ وہ ظاہری المذہب اور محض متبع تھے یا مثلاً امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں زکوٰۃ کی اصنافِ ثمانیہ میں مذہبِ حنفی کو جائز رکھا ہے، حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں سخت ہیں یا مثلاً ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے بعض فروعی مسائل میں جمہور حنفیہ سے اختلاف کیا ہے۔ کتب کی ورق گردانی سے اس قسم کی صدہا مثالیں مل سکتی ہیں۔ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ’’طبقات‘‘ میں علماء کے تراجم ذکر کرتے ہوئے ان کے مختارات متفردہ بھی ذکر کئے ہیں، جو ان کے مشہور مذہب کے خلاف ہیں۔ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کو دیکھو، اس میں بہت سے مقامات پر مذہبِ شافعی کو راجح
Flag Counter