تک اپنے مخاطب کو برا نہیں کہا۔ اگرچہ بعض مسائل کی تردید یا اپنے مذہبِ مختار کی توضیح ضرور کی جاتی ہے۔ مثلاً کتب حنفیہ، شافعی و مالکی مذہب سے اختلاف پر مشتمل ہیں۔ لیکن ہمیں جا بجا اس قسم کے الفاظ نظر آتے ہیں:
’’خلافاً للشافعي و خلافاً للمالك و خلافاً للفلان الامام‘‘
اِسی طرح کتب شافعیہ میں:
’’خلافاً للحنفيت اولا بي حنيفة رحمه الله‘‘
کے الفاظ نظر آتے ہیں۔ بلکہ ایک مذہب کی اپنی کتابوں میں ہی ہمیں حد سے زیادہ اختلاف نظر آتا ہے۔ مثلاً حنفیہ و شافعیہ کی کتب تفریعات ملاحظہ فرمائیے، ان میں کس قدر تعارضِ اقوال موجود ہے۔
اختلاف تو بذاتِ خود مذموم نہیں، بلکہ سلف و خلف اور متقدمین و متاخرین نے جس بات کو مذموم قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ مخالف پر تبرا بازی، لعن طعن اور دشنام طرازی کی جائے یا اس کی تکفیر و تضلیل کی جرأت کی جائے۔ متاخرین نے اس تیرہویں صدی میں یہ کام خوب سرانجام دیا ہے۔ روافض اور شیعہ کی ہمسائیگی کی وجہ سے ان میں بھی یہ خصلت پیدا ہو گئی ہے۔ وما اشبه الليلة بالبارحة
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبتِ زاغ
اس زمانہ میں تو تکفیر اس حد تک سستی ہو گئی ہے کہ ایک ذرا سے بے حقیقت جزئی فروعی فقہی مسئلہ کے اختلاف پر ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ مسئلہ عقائد سے متعلق ہوتا ہے۔ نہ ضروریات دین سے۔ افسوس کہ یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ بسا اوقات مکفر کی تکفیر خود مکفر پر لوٹ آتی ہے۔ کیونکہ جب تک علانیہ کفر صادر نہ ہو، کوئی شخص محض تاویل سے کافر
|