جائے گا۔‘‘ [1]
یہاں بھی نشر و اشاعت سے مقصود تدریس اور تالیف دونوں ہیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان احادیث میں جس علم کے سیکھنے سکھانے، پڑھنے پڑھانے، اور نشر و اشاعت کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، وہ کون سا علم ہے؟ اس کا جواب حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل ارشاد میں موجود ہے:
((الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ ،: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ، وَمَاكَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ)) [2]
’’علم تین ہیں اول آیتِ محکمہ، دوم سنتِ قائمہ اور سوم فریضہ عادلہ۔ اس کے علاوہ سب کچھ زائد ہے۔‘‘
اگرچہ یہاں حصر کا کوئی لفظ تو استعمال نہیں ہوا۔ لیکن عبارت کی ترکیب حصر کی مقتضی ہے۔ یہ حدیث اِس سلسلہ میں نصِ قاطع ہے کہ علم (جس کے فضائل بیان ہوئے ہیں) سے مراد فنونِ حکمت اور علومِ فلاسفہ یونان نہیں بلکہ علومِ کتاب و سنت ہیں۔ اس لیے ان فنون کا کوئی ماہر اگر یہ گمان کرے کہ میں بھی مذکورہ فضائل و مناقب کا مصداق ہوں تو وہ درایت سے جاہل ہے۔ اس کا علم جو غیر طریقہ نبوت سے ماخوذ ہے وہ اس کے لیے موجبِ نجات ہونے کے بجائے وبالِ عظیم اور باعثِ ہلاکت ہو گا
علمے کہ نہ ماخوذ ز مشکوٰۃ نبی ست
واللہ کہ سرابی ازاں تشنہ لبی ست
|