Maktaba Wahhabi

65 - 384
تدریس کی نسبت تالیف کا کام دیرپا ہے اور باقیاتِ صالحات میں شمار ہوتا ہے۔ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین کے سوا اس کا ہر عمل منقطع ہو جاتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ، دوسرا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے اور تیسرا ولدِ صالح جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ [1] اس سے معلوم ہوا کہ موت کے بعد باقی رہنے والا علم بھی ایک ایسی بھلائی ہے جو اس علم والے کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی مفید ہے اور تصنیف و تالیف ہی اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے سلف و خلف حضرات علماء کرام تصنیف و تالیف اور علوم و فنون کے جمع و تدوین میں نہایت سرگرم رہے ہیں۔ اگر ان کی تالیفات نہ ہوتیں تو امت گمراہ ہو جاتی۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اللہ کے احکام کو بیان کریں۔ اور صرف زبانی بیان کر دینا یقیناً ناکافی ہے۔ بلکہ اس سلسلہ میں تصنیف و تالیف بھی ایک ضروری امر ہے۔ اگرچہ علمِ دین تو صرف وہی ہے جو کتاب و سنت میں ہے۔ لیکن زمان و مکان اور لغت و زبان کے اعتبار سے اندازِ بیان بدلتے رہتے ہیں۔ اسی علم کو جب مختلف زبانوں اور متنوع اسالیبِ نگارش میں، زمانہ کے تقاضوں کے مطابق عالم، محقق اور خوش بیان مصنف بیان کرتا ہے تو اس سے دل بہت متاثر ہوتا ہے حتیٰ کہ ہر قاری بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے (غالب)
Flag Counter