بغاوت و مکر ایسی چیز ہے کہ کرنے والے پر ہی پلٹ کر آتی ہے۔
﴿ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ﴾ (1)
کم ظرف آدمیوں کا یہ حال دیکھا کہ ذرا سی نمائش پر جامہ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف اظہار شادمانی کر کے بالا خوانی پر اتر آتے ہیں۔ ہر کہِ ومہِ کے سامنے اترانے لگتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس طرف تو ان امور پر بھی کچھ مسرت حاصل نہ ہوئی جو مابہ المسرت تھے۔ خدا کرے کہ ہمیں دنیا کے کسی کام پر مسرت نہ ہو۔ بڑی مسرت یہ ہے کہ ہم اللہ کے سچے بندے، پکے ایماندار اور وفادار غلام بنے رہیں۔ وہ ہم پر اپنا فضل کرے، طریق عدل پر ہمارے ساتھ معاملہ نہ فرمائے۔
﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾ (2)
خوشی ان لقوں لچوں کو زیادہ ہوتی ہے جو فقط اسی دنیائے دوں کے جینے کو حیات اور اسی جگہ دل کی خواہشیں پوری کرنے کو سعادت جانتے ہیں۔ اور سوا سونے، کھانے، پینے اور لہو و لعب کے کوئی فکرِ عقبیٰ نہیں رکھتے ؎
گر آدمئی ترا ہنر بالیستے
قولِ تو بلیغ و معتبر بالیستے
جز خوردن و خواب چوں نداری کارے
گوشِ تو ازیں دراز تر بالیستے
مجھے ان اظہارات کی بابت بہت کچھ لحاظ تھا۔ لیکن جب کوئی مفر نہ دیکھا تو بحکم:
((مَا بَالُ اَقْوَامٍ يَفْعَلُوْنَ كَذَا وَ كَذَا))
’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ایسے ایسے کام کرتے ہیں؟‘‘
غیبتِ حرام سے اجتناب کے پیش نظر بطور معما قدرے قلیل لکھا
|