جو دیکھا تو اژدہا کو کمین میں پایا۔ جو دشمنی ابلیسِ لعین نے آدم علیہ السلام سے کی تھی، اسی طرح کی عداوت اولادِ ابو الجان نے مجھ ناتوان سے برتی۔ ہمارے سارے ہنر اس جگہ عیب ٹھہر گئے، تمام منکرات، معروفات کی طرح سامنے آئے، انجام پر کسی نے غور نہ کیا، اور نہ اب تک ہوش ہے کہ کیا ہو رہا ہے، بلکہ کمال دور اندیشی و دانشمندی کے دعویٰ کے باوجود کسی نے اپنا کچھ نفع و نقصان نہ پہچانا۔ یہ حروف مقطعات و اعدادِ مختصرات اسرارِ مخفی ہیں، جن کا اظہار کرنا ممکن نہیں ہے ؎
باہر بد و نیک راز نتوانم گفت
کوتاہ سخم دراز نتوانم گفت
حالے دارم کہ شرح نتوانم داد
رازے دارم کہ باز نتوانم گفت
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منافقین کے متعلق علم حاصل ہوتا تھا۔ مگر انہیں اس کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بنو امیہ کے مفسدین کے حالات کا علم تھا۔ لیکن قتل کے خوف سے خاموش تھے۔ مجھے بھی وہ اسرار معلوم ہیں۔ جن کو سوائے میرے اور ایک نفسِ امارہ بالسوء کے کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ لیکن میں اس کے افشاء میں مصلحت نہیں دیکھتا کہ اس قدر کہتا ہوں:
’’کہ کرد کہ نیافت‘‘
بھلا یہ بھی کہیں ممکن ہے کہ بدی کا انجام یہاں یا وہاں بد نہ ہو:
﴿ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾ [1]
’’اور جو شخص ایک ذرے کے برابر برائی کرتا ہے اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
|