حالانکہ میں پانچ برس سے ایک ہی مکان میں سکونت رکھنے کے باوجود اپنے ہم مسکن سے جدا رہتا ہوں۔ میری اور ان کی ہم نشینی آٹھ پہر میں ایک دو ساعت سے زیادہ نہیں ہوتی، اور وہ بھی کھانے پینے وغیرہ کی ضرورت کے موقعہ پر اور میں داخلی و خارجی کسی امر کے متعلق ان سے استفسار نہیں کیا کرتا اور نہ اپنی قدیم عادت کے مطابق انہیں کسی باب میں مشورہ یا رائے ہی دیتا ہوں، نہ وہ مجھ سے کچھ کہتی ہیں، اور نہ ہی انہیں کبھی میری رائے یا صوابدید پسند آئی ہے۔ وہ خود عقل تام اور تجربہ کی مالک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کو آرام نہیں ہے، جب تک کہ میں ان کی مراد کے مطابق بالکل علٰیحدہ نہ ہو جاؤں۔ مگر معلوم نہیں کہ علیحدگی کے بعد پھر یہ تہمت کس کے سر پر جائے گی۔
دوسرا فریق اس امر کو بخوبی جانتا ہے کہ فی الواقع وہ میری مطیع اور پابندِ رائے نہیں ہیں۔ بلکہ میں ان کے ساتھ ہر امر میں مماشاۃ کرنے پر مجبور ہوں اور مجھے ان کی مخالفت کی بھی قدرت نہیں ہے۔ اور ان کا وہی حال ہے کہ:
بسلامے برنجند و بدشنامے خلعت دہند
اس جگہ بالک ہٹ، تریاہٹ اور راج ہٹ سب جمع ہیں، اور میں بھی اپنے غنائے طبعی کا مقہور ہوں ؎
درکارِ ما مضائقہِ داشت نا خدا
کشتی بموج رخت بطوفان گزاشتیم
می آمد از کشودن در بوئے منتے
در بستہ باغِ خلد برضواں گزاشتیم
میں بکرات و مرات علیحدگی کا خواستگار ہو چکا ہوں اور تہِ دل سے یہ چاہتا ہوں کہ ؎
بشہرِ خود روم و شہر یارِ خود باشم
لیکن فکرِ بلیغ کے باوجود اب تک ہجرت کے اسباب میسر نہیں آئے،
|