فعلِ تقلید کی تردید کی ہے، متعین مقلدین کی نہیں۔ غیبت جب ہوتی ہے کہ خاص کسی شخص کا نام لے کر برا کہے۔ یہ کہنے اور لکھنے سے کہ فلاں فعل یا قول حرام، بدعت، کفر یا شرک ہے، کوئی قباحت لازم نہیں آتی۔ اسی طرح اس تصریح میں بھی کوئی برائی نہیں کہ تقلید شرعاً ثابت نہیں ہے اور اس کے قائل و فاعل دلیل اور مقصودِ تنزیل کے مخالف ہیں۔ جب تک کسی مخصوص شخص کا نام نہ لیا جائے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ وحدت الوجود کا مسئلہ کتاب و سنت کے واضح اور صریح نصوص کی بنیاد پر بے شک و شبہ کفر بواح ہے۔ لیکن ہم متعین طور پر اس کے قائل اولیائے کرام کو خواہ وہ مغلوب تھے یا مأوّل، کافر نہیں کہہ سکتے وَقِسْ عَلٰي هٰذَا۔ بلکہ اگر نظرِ غور سے دیکھا جائے کہ جو لوگ اتباع اور متبعین پر طعن یا سب و شتم کرتے ہیں وہ بڑی خطرناک حالت میں ہیں۔ اس لیے کہ یہ طعن در حقیقت شارع پر پہنچتا ہے۔ گو بعض افراد ان متبعین کے ریاکار یا خطاوار ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ و رسول کے حق میں بے ادبی کفر صریح ہے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا مرتد اور واجب القتل ہو جاتا ہے۔ بخلاف طعنِ تقلید کے کہ وہ طعن ائمہ دین پر نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ تو تقلید کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے منع کرتے تھے، اور اتباع کا حکم تو کتاب و سنت اور آثارِ سلف میں بکثرت موجود ہے، اب جو کوئی اس پر طعن کرے گا۔ وہ روافض کے زمرہ میں داخل ہو جائے گا۔ اس لیے کہ یہ شیوہ نامرضیہ اسی فرقہ شنیعہ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل سنت و جماعت کو اس آفت سے سلامت رکھا ہے۔ واللہ الہادی!
|