Maktaba Wahhabi

257 - 384
کا اعتقاد ہے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور تمام سلف صالحین کے حق میں ہے۔ اگرچہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ خدا کے نزدیک ان کے تفاضلِ درجات کیا ہیں؟ میں ان سب کے حق میں بے ادبی کو سمِ قاتل اور زہر ہلاہل جانتا ہوں۔ میں بحمدہٖ تعالیٰ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ دنیا کے کتوں سے ڈر کر تقیہ کروں، اگر ایسا ہوتا تو آج مجھے ان آفتوں کا کیوں سامنا کرنا پڑتا، اور نہ میں ریا کار ہی ہوں، اس لیے کہ ریا کاری تو مال و جاہ اور عزت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے حوصلہ و ہمت سے بڑھ کر دے رکھا ہے، مجھے تحصیل حاصل سے کیا فائدہ؟ بےشک میں اس وقت تک کسی کی مجرد رائے اور اجتہاد کو نہیں مانتا جب تک کہ اسے دلیلِ سنت کے موافق نہ پاؤں، خواہ اس کا تعلق علمِ ظاہر سے ہو یا علمِ باطن سے۔ یہ طریقہ حلت و حرمت کے مسائل میں مطرد ہے۔ اور اصولِ عقائد میں متحد۔ رہے وہ امور جن کا تعلق ان دونوں اقسام میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں۔ وہاں میں معانی آیات و احادیث میں جملہ علماءِ اکابر، صلحاء اور ائمہ سلف کے اقوال و احوال پر اعتماد کرتا ہوں۔ خواہ علماء حنفیہ ہوں یا شافعیہ، حنابلہ ہوں یا مالکیہ، علماء صوفیہ ہوں یا مشائخِ طریقت۔ عوام بلکہ خواص جہلاء کا میرے متعلق یہ گمان کہ میں کسی عالم یا ولی اللہ کے حق میں بے ادب ہوں۔ بالکل گناہ محض ہے۔ ﴿ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ [1] ﴿ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا[2] رہی یہ بات کہ ردِ تقلید یا ذمِ مقلدین سے سوء ادب لازم آتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لازمِ مذہب کسی کے نزدیک بھی عین مذہب نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر کوئی فرد بشر بھی اس بلا سے محفوظ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ردِ تقلید سے تو خود قرآن و حدیث بھرا پڑا ہے۔ اور علماء پر اس کی تبیین واجب ہے، علم چھپانے والے کے لیے آگ کی لگام کی وعید آئی ہے، اس کے باوجود میں نے
Flag Counter