لو الثقلان الجن والانس اجمعوا
يريدون ايلاما لاصفر نملةٍ
يكون لها رب السموت ناصرًا
لما ظفروا منها بادنيٰ مفرة
اس انقلاب سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عزلت و خلوت اختیار کرنے کی وجہ سے اعداء، حساد، اور اغیار کی رؤیت سے محفوظ ہو گیا ہوں ؎
دردیدہ بجائے سرمہ سوزن دیدن
برق آمدہ آتش زدہ خرمن دیدن
ورقید فرنگ غل بگردن دیدن
بہ زانکہ بجائے دوست دشمن دیدن
جب یہ انقلاب ہوا تو ’’تحفۃ الہند‘‘ کے مؤلف عافاہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خط لکھا، جس میں تحریر کیا کہ:
’’میرے نزدیک آپ کا نفس مطمئنہ ہے، اللہ تم سے راضی ہوا اور تم اللہ سے راضی رہو۔ واللہ حسیبک۔ آپ کا حوصلہ عالی ایسا نہیں ہے کہ اندک زوال حشمت و جاہ دنیائے دوں کا، جو کہ اللہ کے نزدیک ایک پرپشہ سے بھی حقیر تر ہے۔ آپ کی خاطر کو مقدر کرے۔ حضرتِ من! کچھ اپنی بھی قدر پہچانو! تم لختِ جگرِ زہرا رضی اللہ عنہا ہو، تم نور چشمِ مرتضیٰ ہو، تم وارث سید الانبیاء ہو، تم جگر گوشہ رسولِ مصطفیٰ ہو، صلی اللہ علیہ وسلم، تم مجددِ دین ہو، تم محی سنت ہو، تم قامع بدعت ہو۔ وَ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ!
اگر خطابِ نوابی نہ رہا تو کیا پروا ہے، خطاب وارث الانبیاء کافی ہے، اگر امیر الملک والا جاہ نہیں رہے، تو امیر المؤمنین تو ضرور ہو، اگر صدائے سلامی اتواپ نہ رہی، بلا سے، ندائے ’’حي عليٰ الصلاة، حي عليٰ الفلاح‘‘ تو خداداد ہے، اگر خدمتِ مفوضہ رئیسہ بھوپال نہ رہی تو غم نہیں، خدمتِ مفوضہ خدا تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم غنیمتِ کبریٰ
|