اِس حالت کے دامن گیر ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی فکر نہیں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کو حسیب، کافی اور رازق علی الاطلاق سمجھتا ہوں ؎
و لیکن خداوندِ بالا و پست
بعصیاں درِ رزق برکس نہ بست
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ:
﴿ وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ﴾ [1]
’’اور آسمان میں ہے رزق تمہارا اور وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘
اور اس آیت کو بھی پہچانتا ہوں:
﴿ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ﴾[2]
’’بےشک اللہ ہی رزق دینے والا، قوت والا مضبوط ہے۔‘‘
انسان اگر اللہ تعالیٰ کے تطورات کو بمقدمہ ایصالِ رزق غور سے دیکھے تو حیران رہ جائے۔ کبھی دشمن کے ہاتھ سے اس کی ناخوشی کے باوجود رزق دلواتا ہے، کبھی ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ یہ معاملہ اس لیے ہوا کہ میری نا رسائی میں دشمنوں اور حاسدوں نے اپنی رسائی یقین کر لی تھی۔ مگر تقدیرِ الٰہی سے معاملہ الٹ ہو گیا۔ میرا کام سے جدا ہونا تو میرے حق میں عین مصلحت تھا۔ لیکن انہیں ہنوز مدعا ہاتھ نہیں آیا۔ کسی اور ہی قوم کی مداخلت ہو گئی جس سے بالکل رفعِ امان ہو گیا ؎
شادم کہ از رقیباں دامن فشاں گذشتی
گو مشتِ خاک ماہم برباد رفتہ باشد
وقال اللہ تعالیٰ:
﴿ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا
|