Maktaba Wahhabi

222 - 384
اس اخلاق کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔ میں نے کبھی ان سے اضافہ یا عہدہ کی درخواست نہیں کی اور نہ کبھی کوئی چیز مانگی۔ اپنی قسمت پر شاکر و قانع تھا۔ میں نے ان سے حج کی رخصت لی تھی۔ اسی دوران وہ مرض الموت میں بیمار پڑ گئیں اور بہت چاہا کہ اس سفر میں زرِ نقد سے میری اعانت کریں۔ لیکن میں نے گریز کیا اور ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے گا، تب جاؤں گا۔ چنانچہ 27 رجب 1285ھ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اسی سال شعبان میں نواب شاہجہان بیگم صدر نشین ریاست ہوئیں۔ تب میں نے ان سے مکرر رخصت لے کر حجاز میمنت طراز کا سفر اختیار کیا۔ اور شعبان کے آخر میں نمازِ ظہر کے بعد بمبئی کی طرف کوچ کیا۔ رئیسہ عالیہ نے ثیابِ فاخرہ اور قیمتی اشیاء کے چند صندوق دئیے کہ حرمین شریفین کے مسکینوں پر تقسیم کر دوں۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ان مساکین میں سے ایک نواب تجمل حسین خان رئیس فرخ آباد بھی تھے۔ جو مجھے وہاں تباہ حالت میں ملے۔ میں نے انہیں بھی عمدہ لباس کا ایک جوڑا دیا۔ اور نہایت عبرت حاصل ہوئی۔ کیونکہ یہ وہ شخص تھا جس کی نوابی کے زمانہ میں، اس کی مدح میں غالب نے یہ شعر کہا تھا ؎ دیا ہے اور کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے آٹھ ماہ بعد فریضہ حج اور زیارتِ مدینہ منورہ سے فارغ ہو کر واپس آیا اور رئیسہ کی خدمت میں وہ کاغذات اور رسیدات پیش کر دیں۔ جن پر مساکین کے دستخط تھے الا ماشاءاللہ۔ اب مجھے اہتمام مدارس پر مامور کر دیا گیا اور ایک سال بعد جب میں میر منشی ہو گیا اور خطاب و جاگیر اور ماہوار عہدہ سے سرفراز کیا گیا تو حُسنِ کار گزاری کے باعث رئیسہ نے میری قدر شناسی فرمائی اور مجھے
Flag Counter