کے لائق ٹھہروں گا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
((كيف الصَّلاحُ بعدَ هذه الآيةِ: {مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ}؟! فذكَرَ الحديثَ [أيْ حديثَ: فكلُّ سُوءٍ عَمِلْنا جُزِينا به؟! فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: غفَرَ اللهُ لك يا أبا بَكْرٍ، ألستَ تَمرَضُ؟ ألستَ تَنصَبُ؟ ألستَ تَحزَنُ؟ ألستَ تُصيبُك اللَّأْواءُ؟، قال: بلى. قال: فهو ما تُجزَوْنَ به)) (رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
’’اس آیت کے بعد کہ ’’جو کوئی برا کام کرے بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ درستی احوال کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم جو کوئی کام کریں گے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں معاف فرمائے اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! کیا تم بیمار نہیں ہوتے؟ کیا تم حزن میں مبتلا نہیں ہوتے؟ کیا تمہیں اندوہ نہیں پہنچتا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی ہے جو تم بدلہ دئیے جاتے ہو۔‘‘
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت یہ ہے کہ:
((إِنَّ الصُّدَاعَ وَالْمَلِيلَةَ لَا تَزَالَانِ بِالْمُؤْمِنِ وَإِنْ كَانَ ذَنْبُهُ مِثْلَ أُحُدٍ حَتَّى لَا تَدَعَا مِنْ ذَنْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ)) (رواہ احمد)
’’مومن کے کوہِ اُحد کے برابر گناہ ہوتے ہیں اور اسے دردِ سر یا تپ عارض ہوتا ہے تو اس کے باعث اس پر رائی کے دانہ کے برابر بھی گناہ نہیں رہتا۔‘‘
حدیث کے الفاظ عام ہیں اور ہر گناہ کو شامل ہیں وہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ، حقوق اللہ سے متعلق ہو یا حقوق العباد سے، لیکن دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہ اور حقوق العباد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم!
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک
|