Maktaba Wahhabi

161 - 384
کو میں نے اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا ہے۔میں اس کا مالک نہیں ہوں، علاوہ ازیں خزانہِ کتب پر زکوٰۃ واجب بھی نہیں ہے۔ خصوصاً جب کہ عالم ان کا محتاج ہو۔ خواہ یہ احتیاج ہر ماہ و سال نہ ہو بلکہ گاہے گاہے پیش آئے۔ بحمدہِ تعالیٰ میری اولاد بھی ہر سال زکوٰۃ ادا کرتی ہے۔ اور ان میں کوئی بھی ممسک و بخیل نہیں ہے۔ میرے پاس کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ میں رئیسہ معظمہ کے گھر میں مستعار رہتا ہوں۔ جس دن مر گیا اس دن سے میرا گھر خانہ گور ہو گا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین میں کسی ایک جگہ موت دی، جس کی تمنا دامن گیر ہے تو محض اللہ کا فضل ہو گا۔ مجھے معلوم ہے کہ مرزا مظہر جانجاناں کرایہ کی خانقاہ میں رہتے تھے۔ استطاعت کے باوجود گھر نہ بنایا۔ پوچھا گیا تو فرمایا: ’’جب چھوڑ ہی جانا ہے تو اپنا گھر اور غیر کا گھر برابر ہے۔‘‘ داشت لقمان یکے کریجہ تنگ چوں گلو گاہ نائے و سینہ چنگ بو الفضولے سوال کر د از دے کیں چہ خانہ ست یک بدست و سہ نے بادمِ سرد و چشمِ گریاں پیر گفت ’’هذَا لِمَنْ يَمُوْتُ كَثِيْر‘‘ ’’نور محل‘‘ جس کے مردانہ و زنانہ تین قطعے الگ الگ ہیں، وہ میرے تینوں بچوں کا غریب خانہ ہے۔ پونے دو لاکھ روپے میں تیار ہوا، پھر اور بہت کچھ اس پر صرف ہوا۔ مسجد نور محل خانہ خدا ہے وہ کسی کی ملکیت
Flag Counter