ہوں، نہ آج کسی فتویٰ پر دستخط کئے، نہ کسی کا مرید ہوں، اور نہ کسی کو مرید و معتقد کرنا چاہتا ہوں، بلکہ خادمِ کتاب و سنت ہوں، اور وہ بھی اس لیے کہ اولاً اپنے نفس کو مہذب بناؤں اور پھر اگر توفیق رفیق ہو تو دیگر مسلمانوں کو بھی میری کتابوں سے نفع پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں یہ علمِ حساب کے دن مجھ پر حجت نہ بن جائے۔ اس لیے کہ عالمِ بے عمل کی، جاہل کی بہ نسبت سزا جزا بہت سخت ہے۔ پھر یہ نسبتِ سیادت، مضاعفتِ عتاب کی دوسری دلیل ہے اور تیسری بلا تالیفات ہیں۔ جو عدمِ اخلاص کی صورت میں مؤلف کے لیے وبال ہیں۔
واللہ! باللہ! عوام مسلمین اور جہال مؤمنین مجھ سے دنیا و دین میں ہزار درجہ بہتر ہیں۔ دنیا میں اس لیے کہ وہ ان مباحث، شکوک اور ریا سے بالکل الگ ہیں۔ جن میں علماء و فقہائے وقت گھرے ہوئے ہیں۔ سیدھے سادے ایمان دار، کلمہ گو، پابندِ صوم و صلوٰۃ اور حاجی ہیں۔ اور دین میں اس لیے کہ جہال سے ان کی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جو ان کی معاصی سے تجاوز کیا جائے گا۔ وہ علماء سے نہ ہو گا۔ غرضیکہ میری جان عجب خطرہ میں گرفتار ہے۔ اللہ فضل کرے گا تو بیڑا پار ہے ورنہ ہلاکت تو نقدِ وقت ہے! اللهم غفراً!
فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی:
میرے پاس جتنا مال ہے اس کی ہر سال زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔ بلکہ زکوٰۃ سے کچھ زیادہ ہی دے دیتا ہوں۔ اگرچہ زکوٰۃ کی مقدار کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ میرے پاس نقدین کے سوا اور کوئی زکوٰۃ طلب مال بھی نہیں ہے۔ کتاب خانہ
|