عطا فرمائی۔ وللہ الحمد!
دینی اعتبار سے میں اس سابقہ حالت کو موجودہ حالت سے بہتر سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ دنیا جس قدر کم ہو گی، اتنا ہی حساب بھی روزِ حساب کم دینا پڑے گا۔ جس کا جمع خرچ زیادہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ تفتیش کی خطرناک حالت میں پھنسا رہتا ہے۔ اہل دین دنیا کو بقاءِ دین اور حفظِ شریعت کے لیے اختیار کرتے ہیں، فخر و مباہات اور اسبابِ فسق و فجور کے لیے نہیں۔ اس لیے بعض اہل علم حضرات پر دنیا کی وسعت کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ کیونکہ جس طرح غنا (تونگری) کے نقصانات بکثرت ہیں۔ اِسی طرح اس کے فوائد بھی بکثرت ہیں۔ اگرچہ فی الجملہ فقر ہی کو غنا پر فضیلت ہے۔ حدیثِ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((قُمْتُ علَى بابِ الجَنَّةِ، فَكانَ عامَّةُ مَن دَخَلَها المَساكِينَ، وأَصْحابُ الجَدِّ مَحْبُوسُونَ (متفق عليه))) (متفق علیہ)
’’میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ داخل ہونے والوں کی اکثریت مساکین پر مشتمل ہے اور اصحابِ ثروت روکے ہوئے ہیں۔ یعنی قیامت کے دن مالدار لوگوں کو روک دیا گیا ہو گا اور مساکین جنت میں جا چکے ہوں گے۔‘‘
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً کہا ہے:
((الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَسَنَتُهُ، فَإِذَا فَارَقَ الدُّنْيَا فَارَقَ السِّجْنَ وَالسَّنَةَ)) (شرح السنہ)
’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور قحط سالی ہے۔ جب دنیا کو چھوڑتا ہے تو گویا قید خانہ و قحط سالی کو چھوڑتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دوست مبتلائے فقر رہتے ہیں۔ حدیثِ قتادہ
|