ہے اور تمام کے تمام صحابہ ان کے خون سے بری ہیں کیوں کہ انہوں نے آپ کے ارادہ کے مطابق عمل کیا اور اپنے آپ کو باغیوں کے حوالہ کر دینے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کو مانا۔[1] ۴۔ خون عثمان رضی اللہ عنہ سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کي بر اء ت: جب عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر لیا گیا تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مدینہ سے شام کے لیے روانہ ہو گئے اور فرمایا: اے مدینہ والو! جو بھی مدینہ میں رہے گا اور اس کے رہتے ہوئے ان (عثمان رضی اللہ عنہ ) کو قتل کر دیا گیا تو اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی مسلط کر دے گا۔ اور جو ان کی مدد نہ کر سکے وہ مدینہ سے بھاگ جائے۔ آپ گئے اور آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے عبداللہ اور محمد بھی گئے اور آپ کے بعد حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے اور جن کو اللہ نے چاہا وہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔[2] جب آپ کو عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی خبر ملی تو فرمایا: میں ابو عبداللہ ہوں، یہ ایسی جنگ ہے جس میں کسی زخم کو کوئی کھجلائے گا تو وہ اسے تازہ کر دے گا، اللہ تعالیٰ عثمان رضی اللہ عنہ پر رحم کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ سلامہ بن زنباع جذامی نے کہا: اے عرب! تمہارے اور عرب کے درمیان دروازہ تھا تو جب دروازہ ٹوٹ جائے تو دوسرا دروازہ بنا لو۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہی ہم چاہتے ہیں اور دروازہ کے لائق ستالی جیسا شخص ہی ہو گا جو حق کو گڑھے سے نکال لے گا اور لوگ برابر عدل میں رہیں گے، پھر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار پڑھے: فیالہف نفسی علی مالک ایصرف مالک حفظ القدر ’’مالک (کی موت) پر مجھے بہت افسوس ہے۔ کیا مالک تقدیر کو نہیں بدل سکتے تھے؟‘‘ انزع من الحراودی بہم فاعذرہم ام بقومی سکر ’’کیا شدید اندھیرے نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا، تو میں انہیں معذور سمجھوں، یا میری قوم کے لوگ مدہوش ہیں؟‘‘ پھر آپ پیدل روتے ہوئے چل دیے اور یہ کہتے رہے: ہائے عثمان! میں حیا اور دین کو آپ کی موت کی خبر دیتا ہوں یہاں تک کہ آپ دمشق پہنچ گئے۔[3] |
Book Name | سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 535 |
Introduction |