Maktaba Wahhabi

286 - 534
حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ عہد عثمانی کا ایک ممتاز جرنیل: حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کم سنی کے باوجود ایک میدان قتال سے دوسرے میدان قتال کی طرف منتقل ہوتے رہتے، کبھی فاتح کی حیثیت سے اور کبھی امداد کے لیے۔ آپ نے جتنے معرکوں میں حصہ لیا فتح و نصرت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی۔ آپ مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجاہد کی حیثیت سے حاضر ہوئے، اس وقت آپ کم سن تھے۔ آپ نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم تلے شرکت فرمائی، اسی غزوہ سے آپ نے جہاد کا آغاز فرمایا، اس وقت آپ تقریباً بیس سال کے تھے۔[1] جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں مضبوط اور طاقت ور پایا تو ان کا عملی طور سے تجربہ کرنا چاہا کہ آپ کس طرح کے لوگوں میں سے ہیں، چنانچہ آپ پر مال کے خزانوں اور اسلحہ کے ذخائر کی ذمہ داری پیش کی، آپ نے مال سے اعراض کرتے ہوئے اسلحہ کے ذخائر کی ذمہ داری قبول فرمائی، ظاہر ہے کہ مال پر اسلحہ کو ترجیح دینا اس جرنیل کے خصائص میں سے ہے جس کے اندر سپاہ گری کی محبت پیوست ہو چکی ہو۔ یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں آپ نے کردوس کی قیادت کا منصب سنبھالا، جب کہ اس وقت آپ کی عمر صرف ۲۴ سال تھی یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قیادت کے آثار کم عمری میں ہی آپ پر نمایاں تھے، جب کہ آپ کا عنفوان شباب تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو الجزیرہ کا حاکم اور سپہ سالار مقرر فرمایا حالاں کہ یہ آسان نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ہر کسی کو اس طرح کا اعلیٰ منصب عطا فرمائیں، کیوں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو قائد کے اندر معین صفات مطلوب ہوتی تھیں جن کا آپ برابر اہتمام فرماتے تھے اور جو لوگوں میں بہت کم پائی جاتی ہیں، آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آرمینیہ اور آذربیجان کا حاکم مقرر فرمایا، یہ علاقہ انتہائی وسیع ہے اور اس علاقہ کے باشندوں کی طبیعت کی شدت اور مسلمانوں کے بنیادی مراکز سے دوری کے اعتبار سے قیادت کا یہ منصب انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی آپ نے قیادت و ادارت کی ذمہ داری سنبھالے رکھی۔ آپ بڑے بہادر، جری اور اقدام کرنے والے تھے، موریان سے قتال کے لیے آپ چھ ہزار کی فوج لے کر آگے بڑھے، جب کہ دشمن کی تعداد ستر ہزار تھی، آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر دشمن نے صبر سے کام لیا اور تم بھی صبر سے کام لے کر مقابلہ میں ڈٹے رہے تو ان کے مقابلہ میں تم اللہ سے قریب ہو گے، اور اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھ دے گا۔ اور اگر انہوں نے صبر سے کام لیا اور تم نے گھبرا کر صبر کا دامن چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہو گا۔پھر رات کے وقت دشمن پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ’’اے اللہ اس رات کے چاند کو ہم سے موخر کر دے، اور بارش کو روک لے اور میرے ساتھیوں کے خون کو محفوظ کر دے، اور ان کو شہیدوں میں لکھ لے۔‘‘ آخر اللہ تعالیٰ
Flag Counter