Maktaba Wahhabi

256 - 534
اہل قبرص کی بدعہدی: ۳۲ھ میں قبرص پر رومیوں کا سخت دباؤ پڑا جس کے نتیجہ میں انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے رومی فوج کو کشتیاں فراہم کیں، اور اس طرح انہوں نے صلح کی شرط کی خلاف ورزی کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کی خیانت کا پتہ چلا تو آپ نے قبرص پر قبضہ کرنے کا عزم کر لیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے جزیرئہ قبرص پر سخت حملہ کیا۔ ایک جانب سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اور دوسری جانب سے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے جزیرہ پر چڑھائی کی اور بہت سوں کو قتل کیا، بہت سے قیدی بنائے گئے اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا۔[1] اسلامی فوج کے دباؤ کے تحت قبرص کا حاکم ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا اور مسلمانوں سے صلح طلب کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلی صلح پر ان کو بحال کر دیا۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ قبرص میں بغیر فوجی اڈہ قائم کیے ہوئے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ فوجی اڈہ ہونے کی صورت میں وہاں کا داخلی امن بحال رہے گا۔ تمرد و بغاوت جنم نہ لے گی اور خارجی حملوں سے حفاظت رہے گی، چنانچہ آپ نے وہاں بارہ ہزار فوج روانہ کی، بعلبک کے لوگوں کو وہاں منتقل کیا، ایک شہر بسایا اور مسجد کی تعمیر کی۔ ان افواج کے لیے ماہانہ وظیفہ جاری کیا اور یہ برابر قائم رہا۔ قبرص میں سکون رہا، مسلمان رومی حملوں سے محفوظ ہو گئے۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ قبرص کے لوگ عسکری قوت نہیں رکھتے ہیں، اور انہیں اپنے مصالح کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے ان کا حق ہے کہ مسلمان روم کے ظلم اور بیزنطینی تسلط سے ان کی حفاظت کریں۔ اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں: قبرص کے لوگ ذلیل و مظلوم ہیں، رومی ان پر اور ان کی عورتوں پر غالب رہتے ہیں،لہٰذا ہم پر ان کا حق ہے کہ ہم ان کی حفاظت و حمایت کرتے ہوئے رومی ظلم سے ان کو بچائیں۔[3] معصیت کی صورت میں انسان اللہ کے نزدیک کس قدر ذلیل ہو جاتا ہے: اس جنگ کی تفصیلات میں مذکور ہے کہ جب ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دشمن کے جنگی قیدیوں کو دیکھا تو رو پڑے اور فرمایا: معصیت کی صورت میں انسان اللہ کے نزدیک کس قدر ذلیل ہو جاتا ہے، ان لوگوں کو دیکھو، ایک دن تھا جب یہ غالب تھے، کوئی ان کا مقابل نہ تھا، لیکن جب ان لوگوں نے اللہ کے حکم کو پامال کیا اور اس کی نافرمانی پر تل گئے تو ان کا جو انجام ہوا اس کو آج تم دیکھ رہے ہو۔[4]
Flag Counter