Maktaba Wahhabi

300 - 534
سے متعلق اختلاف ہے کہ اپنے لیے رکھا یا یہ کہ بحرین روانہ کیا، اور سات کی صورت میں حسب سابق چھ نسخے ارسال کیے اور ساتواں نسخہ یمن روانہ کیا، اور آٹھ کی صورت میں حسب سابق سات نسخے ارسال کیے اور آٹھواں نسخہ اپنے لیے رکھا، اور اس میں تلاوت کرتے ہوئے آپ کی شہادت پیش آئی۔[1] اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر مصحف کے ساتھ ایک قاری قرآن کو بھیجا جو صحیح اور متواتر قراء ت کی رہنمائی کر سکے۔ چنانچہ مکی مصحف کے ساتھ عبداللہ بن سائب کو ، شامی مصحف کے ساتھ مغیرہ بن شہاب کو، مصحف کوفی کے ساتھ ابوعبدالرحمن السلمی کو، بصری مصحف کے ساتھ عامر بن قیس کو بھیجا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مدینہ میں لوگ مدنی مصحف کے مطابق پڑھائیں۔[2] مصحف عثمانی کے سلسلہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف: مصحف عثمانی سے متعلق عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اختلاف ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلہ کی تمام روایات ضعیف ہیں، اور پھر وہ ضعیف روایات جن میں اختلاف ذکر کیا گیا ہے ثابت کرتی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا، اور جمع قرآن کے سلسلہ میں صحابہ کے متفق علیہ موقف کو اختیار کر لیا تھا، اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر باقاعدہ خود اس کا اعلان فرمایا، اور مسلمانوں کی جماعت کی طرف رجوع ہونے کا حکم فرمایا[3] اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ لوگوں سے علم کھینچ کر نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کی وفات کے ذریعہ سے علم اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو ضلالت پر جمع نہیں کرے گا، لہٰذا جس امر پر وہ مجتمع ہوئے ہیں تم اس سے اتفاق کرو۔ حق وہی ہے جس پر وہ متفق ہوئے ہیں، اور پھر آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی تحریر روانہ کی۔[4] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے صحابہ کے اجماع کی طرف رجوع کرنے کو بیان کیا ہے۔[5] اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے موکد قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: الحمدللہ یہ وارد ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے موقف سے راضی رہے اور آپ کی متابعت کی۔[6] طہٰ حسین نے مصحف، اور عثمان و ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے تعلقات کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے ناقابل التفات ہے، در اصل اس نے جو زہر افشانی کی ہے وہ سب اپنے مستشرق اساتذہ [7] اور ان لوگوں کے افکار سے اخذ کیا
Flag Counter