Maktaba Wahhabi

282 - 534
کرتے۔[1]اسی طرح یہ لوگ معاہدوں کی شرائط میں ایک بنیادی شرط یہ رکھتے تھے کہ وہ لوگ جن سے معاہدہ ہو رہا ہے مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کریں گے، اور دشمن کے حملہ سے آگاہ کرتے رہیں گے، جاسوس و مخبر بن کر مسلمانوں سے تعاون کریں گے اور دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاع برابر مسلمانوں کو دیتے رہیں گے۔[2] عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ عہد عثمانی کا ایک ممتاز جرنیل: عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ حقپرست اور بلند پایہ جرنیل تھے۔ عقیدہ کے ساتھ شدید تمسک کی وجہ سے اپنے روساء اور ماتحتوں کے نزدیک ہر طرح قابل اعتماد رہے، مزید برآں شجاعت و بہادری، پیش قدمی اور دینی احکام و مسائل کے علم کا ان پر کافی اثر رہا، اسی لیے سراقہ بن عمرو کے انتقال کے بعد سے لے کر اپنی شہادت تک ’’باب الابواب‘‘ علاقہ کے والی اور کمانڈر رہے۔ خلفاء اور کوفہ میں والیان اور کمانڈروں کی تبدیلی کے باوجود آپ اپنے منصب سے معزول نہ کیے گئے جب کہ آپ کوفہ کی ولایت کے تابع تھے۔ عبدالرحمن بہادری کی جنگ کے وسائل پر ایمان رکھتے تھے اسی لیے نہ خیانت کرتے نہ غداری کرتے اور نہ پیچھے سے مارتے۔[3] آپ کے بلند کردار اور اچھی سیرت کا ’’باب الابواب‘‘ اور ’’بحر خزر‘‘ کے جنوب و مغرب کے علاقے میں امن و استقرار اور نظام کے استحکام کے سلسلہ میں بہت بہترین اور لاجواب اثر رہا۔ شمال میں اسلام کی نشر و اشاعت اور فتوحات کے لیے یہ علاقہ مرکز ثابت ہوا چنانچہ مختلف آزمائشوں اور مخالف لہروں کے باوجود چودہ سو سال سے آج تک یہ دُور دراز کے علاقے اسلام پر ثابت قدم رہیں۔[4] تاریخ کے صفحات پر آپ نے ہمیشہ باقی رہنے والے جو نقوش چھوڑے ہیں ان میں سے یہ بھی ایک ہے کہ جب آپ لوگوں کو لے کر ’’باب‘‘ سے آگے نکلے تو سلطان شہریار نے کہا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ فرمایا: میرا مقصود ’’بلنجر‘‘ اور ’’ترک‘‘ ہیں، اس نے کہا: ہم تو اتنے میں خوش ہیں کہ وہ ہمیں ’’باب‘‘ کے پیچھے چھوڑ رکھیں ادھر کا رخ نہ کریں، عبدالرحمن نے کہا: لیکن ہم اس سے خوش نہیں جب تک کہ میں ان کے ملک میں گھس نہ جاؤں، اللہ کی قسم ہمارے ساتھ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہمارا امیر اجازت دے دے تو ہم ان کے ذریعہ سے ردم (یعنی سد ذوالقرنین) تک پہنچ جائیں۔ سلطان نے کہا وہ کون ہیں؟ عبدالرحمن نے کہا وہ وہ لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف ہیں، اور پورے عزم و اخلاص کے ساتھ اس دین میں داخل ہوئے ہیں، دور جاہلیت میں وہ حیا و شرافت کے حامل تھے، اسلام لانے کے بعد ان کی حیاء و شرافت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ دین ان کے لیے برابر قائم رہے گا، اللہ کی مدد و نصرت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی جب تک دوسرے ان کے اندر تبدیلی نہ رونما کر دیں اور یہ اپنی حالت سے پھر نہ جائیں۔[5]
Flag Counter