Maktaba Wahhabi

490 - 534
کا یہ زعم صحیح نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ جس طرح صحابہ کی ایک جماعت بغیر طلب کیے دفاع کے لیے آگے بڑھی باوجودیکہ آپ ان کو بار بار روکتے رہے، اسی طرح اسلامی لشکر کی بہت بڑی تعداد صوبوں سے خلیفہ مظلوم کے دفاع میں خود سے اور اپنے امراء کے حکم سے آگے بڑھی ہو۔ یہ تصور نہیں کیا جا سکتاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے لوگ جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قریبی تھے، ان حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ یہ بھی تسلیم کر لینا ممکن ہی نہیں کہ مصر میں آپ کے ہم نوا معاویہ بن خدیج اور مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہما جیسے سورما آپ کے قتل کا بیٹھ کر تماشا دیکھیں لہٰذا یہ عین ممکن اور یقینی ہے کہ صوبوں سے اسلامی لشکر خلیفہ کے مطالبہ کے بغیر حرکت میں آیا ہو اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا ہو۔[1] ۳۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا آخری خطاب: عثمان رضی اللہ عنہ کا مسلمانوں کے ساتھ آخری عام اجتماع محاصرہ کے چند ہفتے بعد ہوا، آپ نے لوگوں کو بلایا، سب جمع ہو گئے، سبائی اور مدینہ کے لوگ سب ہی جمع ہوئے۔ لوگوں میں آگے آگے علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے، جب سب آپ کے سامنے بیٹھ گئے تو آپ نے انہیں خطاب فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں دنیا عطا کی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے آخرت طلب کرو، اس نے اس لیے دنیا تمھیں نہیں دی ہے کہ تم اسی کے ہو کے رہ جاؤ، یقینا دنیا فنا ہو جائے گی اور آخرت باقی رہے گی، یہ فانی دنیا تمھیں دھوکہ میں نہ ڈالے اور باقی رہنے والی آخرت سے غافل نہ کر دے۔ باقی رہنے والی چیز کو فانی پر ترجیح دو۔ یقینا دنیا ختم ہونے والی ہے۔ سب کو اللہ کے پاس جانا ہے، اللہ سے تقویٰ اختیار کرو یقینا تقویٰ ہی اللہ کی پکڑ اور اس کے انتقام سے بچاؤ اور ڈھال ہے۔ جماعت کو لازم پکڑو، ٹولیوں میں مت بٹو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103) (آل عمران: ۱۰۳) ’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد
Flag Counter