Maktaba Wahhabi

517 - 534
یہ ہے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سچی اور روشن تصویر جس کے اندر آپ کی شخصیت اور آپ کی زندگی کے خدوخال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ قرب نمایاں ہے۔ رہی وہ تصویر جس کے اندر آپ کے کردار کو مسخ کر کے مصلحت پرست، خود غرض، دنیا دار کی شکل میں پیش کیا گیا ہے وہ متروک اور ضعیف ہے جسے واقدی نے موسیٰ بن یعقوب سے روایت کیا ہے۔[1] ان ضعیف و سقیم روایات سے مؤلفین اور مؤرخین کی ایک جماعت متاثر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو تحت الثریٰ پہنچا دیا ہے جیسے محمود بن شیت خطاب[2]، عبدالخالق سید ابو رابیہ[3] اور عباس محمود عقاد۔ عقاد تو سند کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اور اپنے قارئین کو بے وقوف بناتا ہے اور ان کے سامنے معاویہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو موقع پرست اور مصلحت پرست کی شکل میں پیش کرتا ہے اگرچہ تمام تاریخی ناقدین ان روایات کے بطلان پر متفق ہو جائیں جن سے عقاد نے اپنے تجزیہ میں استدلال کیا ہے تو اس کی عقاد کو کوئی پروا نہیں، چنانچہ ان ضعیف، واہی اور ناقابل حجت روایات کو ذکر کرنے کے بعد عقاد کا کہنا ہے کہ تاریخی ناقدین اس گفتگو کی صداقت اور ان کلمات کی صحت سے متعلق جو چاہیں کہیں، اس کی نقل ثابت نہیں، اس کی سند ثابت نہیں اور نہ نص ثابت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں (اگرچہ تمام کتب تاریخ اس کی تردید کریں) کہ دونوں (یعنی معاویہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ) کے مابین سلطنت اور ولایت پر معاونت و سودا بازی کا اتفاق طے پایا اور دونوں کے مابین اس حصہ پر سودا بازی ہوئی جو بعد میں دونوں کو حاصل ہوا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کبھی دونوں میں اتفاق نہ ہوتا۔[4] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حقیقی شخصیت یہ ہے کہ آپ اصول پسند آدمی تھے عثمان رضی اللہ عنہ کی نصرت و امداد نہ کر سکے تو مدینہ کو خیرباد کہہ دیا اور جب ان کی شہادت ہوئی تو خوب روئے کیوں کہ آپ ان کے قریبی ساتھی، دوست اور مشیر تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنر و حاکم نہ ہونے کے باوجود شوریٰ میں شریک ہوتے تھے۔ اور آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس اس غرض سے پہنچے تاکہ ان کے ساتھ مل کر قاتلین عثمان سے جنگ کر کے خلیفہ شہید کا بدلہ لے سکیں۔[5] عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ان مجرم قاتلین کے خلاف آپ کے غصہ کو بھڑکانے کے لیے کافی تھی اور ایسی صورت میں ان مجرموں سے بدلہ لینے کے لیے جنھوں نے حرم رسول کی بے حرمتی کی تھی، خلیفہ کو لوگوں کی نظروں کے سامنے شہید کیا تھا مدینہ کے علاوہ دوسری جگہ کا انتخاب ضروری تھا، اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خاطر عمرو رضی اللہ عنہ کے غصہ ہونے میں کون سا تعجب ہے؟ اگر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کو اس سلسلہ میں شک ہے تو اس کی بنیاد وہ جھوٹی روایات ہیں جو یہ تصویر پیش کرتی ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پیش نظر صرف حکومت و اقتدار تھا۔[6]
Flag Counter