Maktaba Wahhabi

298 - 534
نے وہ شکل اختیار کر لی تھی جس کو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔‘‘[1] کیا عثمانی مصاحف تمام حروف سبعہ پر مشتمل تھے؟ محقق و ریسرچ اسکالر شیخ صادق عرجون رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے صحائف جو باجماع مسلمین عثمانی مصحف کی اصل اور اساس تھے وہ ان حروف سبعہ پر مشتمل نہ تھے جن سے متعلق صحیح احادیث وارد ہیں کہ قرآن کا نزول سات حرفوں پر ہوا ہے، بلکہ ان میں سے ایک حرف پر مشتمل تھا اور وہ وہ حرف تھا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری مرتبہ جبریل علیہ السلام سے پڑھا تھا، اور اسی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی تک عمل رہا، کیوں کہ شروع میں حروف سبعہ کے مطابق قرآن کی قراء ت کی رخصت امت کی آسانی کے لیے دی گئی تھی، اور جب قرآن عام ہو گیا، اور لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف ہوا، اور ان کی لغتیں ایک ہو گئیں تو اس کا حکم اٹھا لیا گیا۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’چوں کہ لوگ امی (ان پڑھ) تھے، بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، لہٰذا ان کے لیے شروع میں قرآن کو دوسرے کی لغت کے مطابق پڑھنا مشکل تھا اس لیے لوگوں کو وسعت دی گئی تھی کہ اگر معنی ایک ہو تو الفاظ کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ رخصت باقی رہی یہاں تک کہ بہت سے لوگوں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا، اور ان کی لغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہو گئیں، اور وہ اس طرح الفاظ کی ادائیگی پر قادر ہو گئے تو ان کے لیے اب یہ جائز نہ رہا کہ وہ اس کے خلاف قرآن کی تلاوت کرتے۔‘‘ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقتی طور پر ایک ضرورت کے تحت حروف سبعہ کی رخصت دی گئی تھی، جب یہ ضرورت ختم ہو گئی تو یہ رخصت بھی ختم ہو گئی، اور پھر ایک ہی حرف پر قرآن کی قراء ت باقی رہی۔‘‘[2] امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حروف سبعہ کے مطابق قرآن کی تلاوت امت پر واجب نہ تھی بلکہ جائز تھی، اس لیے جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ اگر ایک حرف پر لوگ جمع نہ ہوئے تو امت افتراق و اختلاف کا شکار ہو
Flag Counter