Maktaba Wahhabi

408 - 534
کثرت ہوئی، اور فتنہ رونما ہوا، جس کا سبب طرفین میں تقویٰ و اطاعت میں مخلص نہ ہونا، اور خواہشات نفس اور معصیت کی تھوڑی آمیزش ہو جانا تھا۔ طرفین میں سے ہر ایک نے تاویل کی کہ وہ بھلائی کا حکم دے رہا ہے اور برائی سے روک رہا ہے اور وہ حق و عدل کے ساتھ ہے، نیز اس تاویل کے باوجود تھوڑی خواہشات وظن کی آمیزش رہی، اگرچہ طرفین میں سے ایک گروہ دوسرے کے مقابلہ میں حق سے زیادہ قریب تھا۔[1] یہ حقیقت اس گفتگو سے زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ایک متبع کے درمیان ہوئی۔ اس شخص نے عرض کیا: کیا بات ہے مسلمانوں نے آپ کی مخالفت کی اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہیں کی؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما مجھ جیسے لوگوں کے حاکم و والی تھے اور آج میں تم جیسے لوگوں کا حاکم و والی ہوں۔[2] امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ ان حالات سے بالکل واقف تھے جو معاشرہ میں رونما ہو رہے تھے، چنانچہ آپ نے امرائے مملکت (گورنروں) کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا: ’’حمد و صلاۃ کے بعد! معلوم ہو کہ رعیت انتشار کا شکار ہے، اور حرص میں لگ چکی ہے، اس کے تین اسباب ہیں: ترجیح دی جانے والی دنیا، تیز رفتار باطل افکار و نظریات، اور لوگوں میں کینہ و حسد۔ اور امید ہے کہ ان چیزوں سے نفرت دلائی جائے تو حالات تبدیل ہو جائیں۔‘‘[3] عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کا عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ہونا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد فوراً عثمان رضی اللہ عنہ کا آنا، اور پھر دونوں کی طبیعتوں میں اختلاف کا وجود رعیت کے معاملات میں دونوں کے اسلوب اور طرز تعامل میں تبدیلی کا سبب بنا، عمر رضی اللہ عنہ سخت طبیعت اور اپنے نفس اور ماتحتوں کا سختی سے احتساب کرنے والے تھے، جب کہ عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی نرم طبیعت اور معاملات میں نرمی برتنے والے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنا اور دوسروں کا محاسبہ اس طرح نہیں کر پاتے تھے جس طرح عمر رضی اللہ عنہ کرتے تھے، چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں: اللہ عمر پر رحم فرمائے، ایسی طاقت کس کو ہے جیسی طاقت عمر رضی اللہ عنہ کو تھی۔[4] اگرچہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دور میں آپ کی طرف راغب ہوئے کیوں کہ آپ ان کے ساتھ انتہائی نرم تھے جب کہ عمر رضی اللہ عنہ ان پر سخت تھے، یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی لوگوں سے محبت ضرب المثل بن گئی۔ لیکن آخری دور میں آپ کے خلاف اعتراضات شروع ہوئے، اور اس کا سبب آپ کی نرم خوئی اور طبیعت کی لطافت تھی، جس کا اثر آپ کے دور اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں واقع ہونے والے واقعات کے درمیان فرق کے مظاہر میں رہا، عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ تھا، چنانچہ آپ نے ان مجرمین سے کہا تھا جن کو قید کیا تھا: کیا تمھیں معلوم
Flag Counter