Maktaba Wahhabi

289 - 534
(۴) ایک مصحف پر امت کو جمع کرنے کا عظیم کارنامہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مفاخر میں سے امت کو ایک مصحف پر جمع کرنا ہے۔ کتابت قرآن کے دو مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ… عہد نبوی میں یہ بات قطعی دلائل سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا فوراً اس کو ضبط تحریر میں لانے کا حکم فرماتے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ کتابت قرآن کے لیے کاتبین وحی مقرر تھے یہاں تک کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کتابت قرآن کی وجہ سے کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور و معروف تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں فضائل قرآن کے بیان میں ((باب کتاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم )) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین‘‘ کے نام سے مستقل باب قائم کیا ہے اور اس میں دو حدیثیں روایت کی ہیں: پہلی حدیث: …ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔[1] دوسری حدیث: …براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ … {لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ}نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ادع لی زیدا و الیجی ء باللوح والدواۃ و الکتف او الکتف و الدواۃ)) [2] ’’زید کو بلاؤ، تختی اور دوات و شانہ، یا شانہ اور دوات لے کر آجائیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہجرت مدینہ سے قبل قرآن کے لکھوانے کا اہتمام فرماتے تھے، مکہ کے کاتبین وحی میں سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ تھے۔ بعد میں یہ مرتد ہو گئے اور دوبارہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اس سلسلہ میں ان کا واقعہ مشہور ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں، اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ چاروں خلفائے راشدین کاتبین وحی میں سے تھے۔شاید یہ لوگ مکہ میں قرآن لکھا کرتے تھے۔ عہد مکی میں قرآن کے لکھے ہوئے ہونے کی دلیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ اسلام ہے کہ جب وہ اپنی ہمشیر کے پاس پہنچے تو ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طہ لکھی ہوئی تھی۔ نیز قرآن میں خود اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ
Flag Counter