Maktaba Wahhabi

521 - 534
میں افتراق و اختلاف پیدا ہو چکا تھا، فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی لہٰذا اتفاق پیدا نہ ہوا جماعت منظم نہ ہوئی، خلیفہ اور امت کے اچھے لوگ چاہتے ہوئے بھی اپنے مقاصد خیر کو پورا نہ کر سکے اور فتنہ و افتراق میں بہت سی اقوام داخل ہو گئیں۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں آہستہ آہستہ اسلامی فتوحات میںضعف پیدا ہونا شروع ہوا، جب سبائی فتنہ نے اسلامی شہروں اور مرکز خلافت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت اسلامی فتوحات کا سلسلہ بند ہو گیا اور یہ سلسلہ بند رہا بلکہ بعض مقامات پر مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا آغاز ہوا اور عالم اسلام کے اندر استقرار پیدا ہوا، امن و امان بحال ہوا اور پھر مشرق و مغرب اور شمال میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ پورے آب و تاب سے شروع ہوا۔[2] دوسروں پر ظلم و زیادتی دنیا و آخرت میں ہلاکت کا سبب ہے یقینا دوسروں پر ناحق ظلم و زیادتی دنیا و آخرت میں ہلاکت کا سبب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَوْعِدًا (59) (الکہف: ۵۹) ’’یہ ہیں وہ بستیاں جنھیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کر دیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والے ان ظالم باغیوں کے حالات کا جو بھی جائزہ لے گا اس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو نہیں بخشا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی دنیا میں رسوا و ذلیل کیا اور انتقام لیا، ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔[3] خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں بہ سند صحیح عمران بن حدیر سے روایت کرتے ہیں کہ غالباً عبداللہ بن شقیق نے مجھ سے بیان کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا پہلا قطرہ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهُ [4] (البقرہ: ۱۳۷) پر پڑا۔ ابوحریث نے بیان کیا کہ وہ اور سہیل نمیری گئے تو لوگوں نے انہیں وہ مصحف (قرآن) دکھایا جس میں خون کا قطرہ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهُ پر موجود تھا مٹایا نہیں گیا تھا۔
Flag Counter