Maktaba Wahhabi

92 - 534
ان کے مابین تفاوت موجود تھا، اسی طرح آپ نے طریقہ انتخاب اور اس کی مدت کی تحدید فرما دی، اور ان دونوں کی تعداد کی بھی تعیین فرما دی جو خلیفہ کے انتخاب کے لیے کافی تھے۔ اس مجلس انتخاب کے لیے حکم (فیصل) اور اگر ووٹ برابر ہوں تو مرجح کی بھی تعیین فرما دی، اور مجلس انتخاب میں انتخابی کارروائی کی نگرانی، فتنہ و فساد کو روکنے اور جماعت کی مخالفت کرنے والے کو سزا دینے کے لیے اللہ کے لشکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو مقرر فرمایا تاکہ اہل حل و عقد کی مجلس میں جو انتخابی کارروائی ہو اس میں نہ تو کوئی داخل ہو سکے اور نہ سن سکے۔[1] گزشتہ اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو: ۱۔ مجلس شوریٰ کے افراد کی تعداد اور ان کے اسمائے گرامی: ان کی تعداد کل چھ تھی اور وہ یہ حضرات تھے: ۱۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۲۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۳۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ۴۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ۵۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ۶۔ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا نام ان میں شامل نہ کیا حالاں کہ وہ بھی عشرئہ مبشرہ میں سے تھے جن میں سے یہ چھ افراد تھے، شاید اس لیے ان کا نام شامل نہیں کیا کیوں کہ یہ آپ کے قبیلے بنو عدی سے تھے،[2] اور عمر رضی اللہ عنہ اس بات کے انتہائی حریص تھے کہ اپنے قرابت داروں کو امارت و قیادت سے دور رکھیں، حالاں کہ ان میں اس کے اہل موجود تھے اسی لیے آپ نے اپنے قرابت دار سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو خلافت کی مجوزہ فہرست میں شامل نہ فرمایا۔ [3] ۲۔ طریقہ انتخاب خلیفہ: انہیں حکم دیا کہ کسی ایک کے گھر میں جمع ہو جائیں، اور آپس میں مشورہ کریں، اور اپنے ساتھ مشیر کی حیثیت سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو شامل کر لیں، ان کی حیثیت صرف مشیر کی ہو گی، خلافت کا استحقاق نہ ہو گا۔ مشورہ کی مدت میں لوگوں کی امامت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کرائیں گے، چنانچہ ان سے آپ نے فرمایا: ان تین دنوں میں تم نماز کے امیر ہو گے۔ آپ نے ان افراد شوریٰ میں سے کسی کو امامت نہیں سونپی، کیوں کہ ایسی صورت میں عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter