Maktaba Wahhabi

223 - 534
عہد عثمانی کی فتوحات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر سے اعدائے اسلام کے حوصلے بلند ہو گئے، خاص کر اہل روم و فارس میں اپنے گنوائے ہوئے ملکوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی طمع پیدا ہوئی، چنانچہ یزدگرد شاہ فارس نے سمرقند کی راجدھانی ’’فرغانہ‘‘ میں اپنی پلاننگ شروع کی، اور رومی قائدین جو شام سے بھاگ کر قسطنطنیہ میں منتقل ہو چکے تھے وہ عہد عثمانی میں شام کو واپس لینے کا خواب دیکھنے لگے اور اس کے لیے منصوبہ تیار کرنے میں لگ گئے، مصر میں رومیوں کی بچی کھچی فوج اسکندریہ میں قلعہ بند ہو چکی تھی۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ رومیوں نے منصوبہ بند طریقہ پر اپنے آپ کو محفوظ کر رکھا تھا، دیواروں پر منجنیق نصب کر رکھی تھیں۔ ہر قل نے بذات خود قتال میں حصہ لینے کا عزم کر رکھا تھا اور کوئی رومی اس سے پیچھے نہیں رہ سکتا تھا کیوں کہ اسکندریہ ان کی آخری پناہ گاہ تھی۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رومی اسکندریہ میں جمع ہوئے، اور دوبارہ قابض ہونے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی، یہاں تک کہ انہوں نے معاہدہ مصالحت کو توڑ دیا اور روم کی بحری طاقت سے مدد لی۔[2] چنانچہ تین سو بحری جہاز فوج اور اسلحہ کے ساتھ ان کی مدد کو پہنچ گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تمام حالات کا مقابلہ عزم و حوصلہ پر مبنی سیاست سے کیا جو درج ذیل طریقہ کار پر مشتمل تھا: ۱۔ باغی روم و فارس کو تابع کرنا اور اسلامی سلطنت کو ان ممالک پر دوبارہ غالب کرنا۔ ۲۔ دشمنوں کی امدادی لائن کو منقطع کرنے کے لیے ان کے پیچھے واقع علاقوں میں جہاد و فتوحات کو جاری رکھنا۔ ۳۔اسلامی ممالک کی حمایت و حفاظت کے لیے مستقل عسکری مراکز قائم کرنا۔ ۴۔ اسلامی فوج کی ضرورت کی خاطر بحری فوج تیار کرنا۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں صوبوں کے مرکزی مقامات ہی فوجی اڈے ہوتے تھے، عراق میں کوفہ و بصرہ، شام میں دمشق (خاص کر جب معاویہ رضی اللہ عنہ پورے شام کے حاکم مقرر ہوئے) اور مصر میں فسطاط، یہ فوجی اڈے اور مراکز ایک طرف اسلامی سلطنت کی حفاظت اوردوسری طرف اسلام کی نشر و اشاعت اور فتوحات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ [4]
Flag Counter