Maktaba Wahhabi

418 - 534
٭ ابن سبا کا تذکرہ جرح و تعدیل کی کتابوں میں موجود ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ (متوفی ۳۵۴ھ) فرماتے ہیں: محمد بن سائب کلبی عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں میں سے ایک سبائی تھا، جن کا عقیدہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں ہوئی ہے، وہ دنیا میں قیامت سے قبل آئیں گے، یہ جب بدلی دیکھتے تو کہتے اس میں امیر المومنین ہیں۔[1] ٭ اسی طرح علم الانساب کی کتابوں میں سبائیوں کی نسبت عبداللہ بن سبا کی طرف کی ہے، بطور مثال سمعانی [2] (متوفی ۵۶۲ھ) کی کتاب الانساب ملاحظہ کریں۔[3] ٭ ابن عساکر (متوفی ۵۷۱ھ) عبداللہ بن سبا کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں: عبداللہ بن سبا جس کی طرف سبائی منسوب ہیں، غالی رافضی ہیں، اس کا تعلق یمن سے تھا، یہ یہودی تھا اور اس نے اوپر سے اسلام ظاہر کیا۔[4]عبداللہ بن سبا سے متعلق روایات کا بیان کرنے والا صرف سیف بن عمر نہیں ہے، بلکہ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بہت سی روایات بیان کی ہیں جن کا راوی سیف بن عمر نہیں ہے۔ ان روایات سے عبداللہ بن سبا کے وجود کا ثبوت ملتا ہے اور اس سے متعلق اخبار و اقعات کی تاکید ہوتی ہے۔[5] ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں: رفض و تشیع کی اصل منافقین زنادقہ ہیں، عبداللہ بن سبا زندیق نے یہ بدعت ایجاد کی، علی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں غلو کا مظاہرہ کیا، عقیدئہ امامت کی دعوت دی اور اس پر نص کا دعویٰ کیا اور علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کا دعویٰ کیا۔[6] ٭ امام شاطبی رحمہ اللہ (متوفی ۷۹۰ھ) نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سبائیوں کی بدعت اعتقادی بدعت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے الٰہ کے وجود سے متعلق ہے یہ بدعت دیگر بدعات سے مختلف ہے۔[7] ٭ علامہ مقریزی (متوفی ۸۴۵ھ) فرماتے ہیں: عبداللہ بن سبا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں وصیت، رجعت اور تناسخ کی بدعت لے کر کھڑا ہوا۔[8] شیعی مراجع و مصادر نے بھی عبداللہ بن سبا کا تذکرہ کیا ہے: ٭ الکشی نے محمد بن قولویہ سے روایت کی ہے کہ مجھ سے سعید بن عبداللہ نے بیان کیا، اس نے کہا مجھ سے
Flag Counter