Maktaba Wahhabi

109 - 534
لیکن کیا یہ سچ ہے کہ دونوں میں رشتہ داری تھی۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے عثمان اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی قریبی نسبی رشتہ داری کی نفی کی ہے۔ فرماتے ہیں: عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے نہ چچا زاد تھے اور نہ اصلاً آپ کے قبیلہ سے ان کا تعلق تھا بلکہ یہ تو بنو زہرہ سے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ بنو امیہ سے، اور بنو زہرہ بنو امیہ کی بہ نسبت بنو ہاشم کی طرف زیادہ مائل تھے۔ بنو زہرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ننھیال تھی یہ سب آپ کے ماموں لگتے تھے، اور انہی میں سے عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((ہذا خالی فلیرنی امرؤ خالہ۔))[1] ’’یہ میرے ماموں ہیں ان جیسا کوئی اپنا ماموں دکھائے۔‘‘ اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرسے مہاجر اور انصاری سے انصاری کی مواخاۃ اصلاً نہیں کرائی تھی بلکہ مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخاۃ کرائی تھی (کہ اس طرح ہی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا عثمان رضی اللہ عنہ سے رشتہ ہوا ہو بلکہ) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کی مواخاۃ سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے کرائی تھی۔[2] اور اس مواخاۃ سے متعلق حدیث صحاح و سنن وغیرہ میں مشہور و معروف ہے، اور اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں[3] لیکن چونکہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ کی بہن ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی[4] جو بنو امیہ سے تھیں۔ اس رشتہ مصاہرت کی بنا پر شیعی روایات نے اتہامات کا طومار کھڑا کر دیا، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر ناانصافی اور عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نا حق ترجیح دینے کا اتہام باندھ دیا۔ اور ایک طرف جہاں یہ بھول گئے کہ نسب کی قوت مصاہرت کی قوت پر مقدم ہے وہیں دوسری طرف قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی حقیقت کو فراموش کر دیا کہ ان کے تعلقات نسب و مصارت پر قائم نہیں تھے بلکہ ایمان و تقویٰ پر قائم تھے۔ ۲۔اموی پارٹی اور ہاشمی پارٹی: ابو مخنف کی روایت سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ بیعت کے وقت بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان اختلاف اور سخت کلامی واقع ہوئی، حالاں کہ یہ بے بنیاد اور غلط بات ہے، صحیح یا ضعیف کسی بھی روایت میں اس کا سراغ نہیں ملتا۔[5] بعض مؤرخین نے شیعی اور رافضی روایات کے چکر میں آکر ان روایات پر اپنے غلط تبصروں کی بنیاد رکھی، اور خلیفہ کی تعیین و انتخاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشاورت کی تصویر کشی قبائلی اختلاف کی شکل میں پیش کی، اور یہ
Flag Counter