معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک اجتماع کیا جن میں ابو ایوب خالد بن زید انصاری، ابودرداء، ابوذر غفاری، عبادہ بن صامت، واثلہ بن اسقع، عبداللہ بن بشر مازنی، شداد بن اوس بن ثابت، مقداد بن اسود، کعب الاحبار بن ماتع اور جبیر بن نفیر حضرمی رضی اللہ عنہم شامل تھے۔[1] ان حضرات نے آپس میں مشورہ کیا اور اہل قبرص کو یہ پیغام بھیجا کہ اس جنگی مہم سے قبرص پر قبضہ کرنا ان کا مقصد نہیں، بلکہ انہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دینا اور شام میں اسلامی حدود کا تحفظ مقصود ہے[2] کیوں کہ بیزنطینی شام پر حملہ آور ہونے کے لیے قبرص کو جنگی اسٹیشن کے طور پر استعمال کرتے تھے، یہاں آرام کرتے اور وہاں سے رسد حاصل کرتے تھے۔ اس اعتبار سے یہ شام کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا، اس کا اسی حالت میں باقی رہنا شام کے لیے خطرہ تھا، اگر مسلمان اس جزیرہ کو تابع کر کے اطمینان کی سانس نہ لیتے تو یہ ان کی پشت پر خنجر کی طرح باقی ہوتا اور اسلامی حدود کے لیے خطرہ بنا رہتا، لیکن قبرص والوں نے مجاہدین کے سامنے خود سپردگی نہ کی بلکہ اپنے صدر مقام میں قلعہ بند ہو گئے، مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نہ نکلے بلکہ رومیوں کے انتظار میں رہے تاکہ وہ ان کے وفاع کے لیے پہنچیں اور مسلمانوں کے حملہ کو روکیں۔[3] خود سپردگی اور صلح کا مطالبہ: مسلمان قبرص کی راجدھانی قسطنطنیہ کی طرف آگے بڑھے اور اس کا محاصرہ کر لیا، چند ساعتوں کے بعد ان لوگوں نے مسلمانوں سے صلح کا مطالبہ کیا۔ مسلمانوں نے ان کے مطالبہ کو قبول کیا اور طرفین سے صلح کی شرائط رکھی گئیں۔ اہل قبرص نے مسلمانوں کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہ رکھی جائے جس کی وجہ سے وہ رومیوں کے ساتھ مشکلات میں مبتلا ہوں کیوں کہ یہ ان کی قدرت سے باہر ہے، وہ رومیوں کے ساتھ قتال نہیں کر سکتے۔ اور مسلمانوں کی طرف سے مندرجہ ذیل شرائط رکھی گئیں: ۱۔ باہرکے حملہ کی صورت میں مسلمان جزیرہ قبرص کے دفاع کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ۲۔ جزیرہ قبرص کے باشندگان رومیوں کی نقل و حرکت سے مسلمانوں کو مطلع کرتے رہیں گے۔ ۳۔ جزیرہ قبرص کے باشندگان مسلمانوں کو سالانہ سات ہزار دو سو دینار ادا کرتے رہیں گے۔ ۴۔ جزیرہ قبرص کے لوگ مسلمانوں کے لیے دشمن تک پہنچنے کے لیے راستہ فراہم کریں گے۔ ۵۔ اگر رومی اسلامی ممالک پر حملہ آورہوں تو جزیرہ قبرص کے لوگ ان کی مدد نہیں کریں گے اور نہ مسلمانوں کے اسرار پر انہیں مطلع کریں گے۔[4] |
Book Name | سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 535 |
Introduction |