Maktaba Wahhabi

331 - 534
بہت ہیں جن کا حصر کرنا مشکل ہے۔[1] گورنر کو صحیح خبریں پہنچانا: رعایا پر واجب ہے کہ وہ والی و گورنر تک صحیح خبریں پہنچائیں، اور سچائی کو اختیار کریں خواہ یہ عوام کے حالات سے متعلق ہوں، یا دشمنوں سے متعلق، یاگورنر کے عمال و ملازمین سے متعلق، اس سلسلہ میں حتی الوسع جلدی کرنا چاہیے، خصوصاً جب کہ یہ خبریں جنگی امور، دشمنان یا عمال کی خیانت سے متعلق ہوں۔ کیوں کہ حاکم و محکوم، رعایا اور گورنر و والی کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے عام مصالح کی حفاظت کریں اور اس کا خیال رکھیں۔[2] گورنر کے موقف میں اس کا بھر پور تعاون کرنا: عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتنہ برپا ہوا اور فتنہ پروروں نے ان سے بعض گورنروں کو معزول کرنے کا مطالبہ کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو مسترد کر دیا۔ در حقیقت یہ تعاون اسلامی سلطنت کے عام مقصد کو پورا کرتا ہے، اور فساد سے روکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شکایات کی طرف التفات نہ کیا جائے اور بلا ثبوت فراہم کیے اس سے تعاون کیا جائے، نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ تعاون خلفاء کی طرف سے شکایات کی تحقیق کر لینے اور ثبوت فراہم ہو جانے کے بعد اور انتہائی دقیق احتساب کے بعد ہونا چاہیے۔ ان قضیوں میں تحقیق کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جاتی تھی۔ والی اور گورنر کی تائید و تعاون جس طرح خلیفہ پر واجب ہے، اسی طرح رعایا کی طرف سے بھی واجب ہے، اور لوگوں پر ان کا احترام و قدردانی فرض ہے۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ نے جن بعض والیوں اور گورنروں کو معزول کیا تو محض رعیت کی مصلحت کے پیش نظر کیا تھا۔ معزولی کے بعد ان کا احترام: عثمان رضی اللہ عنہ گورنروں کو معزول کر دینے کے بعد ان کا احترام ملحوظ رکھتے تھے جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ آپ کا برتائو رہا، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے سلطنت کے اہم ترین مسائل میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے انہیں معزول کرنے کے بعد بھی مشورے کیے، یہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے معزول شدہ والیان و گورنروں کے ساتھ غایت درجہ احترام کا برتائو تھا۔ گورنروں کی تنخواہیں: گورنروں کے حقوق میں سے ان کی تنخواہیں ہیں جو ان کی معیشت کا مصدر ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں خلفائے راشدین کے درمیان عمال و امراء اور گورنروں کی تنخواہوں کا اصول متفق علیہ رہا، اگرچہ روایات میں صرف بعض کی تنخواہوں کا ذکر آتا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں تمام
Flag Counter