Maktaba Wahhabi

151 - 534
لیے حصہ مقرر فرمایا، اور ان شاء اللہ اجر و ثواب کے بھی مستحق بنے۔ پھر بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کس کی بات ہو سکتی ہے۔ ۲:…صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کی حیثیت سے قریش کے پاس جانا۔حدیبیہ کے موقع پر جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قریش کے پاس بحیثیت سفیر بھیجنا چاہا آپ نے برضا و رغبت آپ کے فرمان کو عملی جامہ پہنایا، حالاں کہ آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ مہم کس قدر خطر ناک ہے لیکن آپ کی شجاعت و بہادری تھی کہ آپ نے انکار نہ کیا اور سراپا اطاعت بن گئے، یقینا جو شخص ان سنگین حالات میں سفارت کو قبول کرے وہ انتہائی عظیم بہادر و شجاع اور نادر الوجود ہیرو ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ چوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ میں بھی انکار کی تاب نہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ میں آپ کی شجاعت و بہادری بھی عیاں ہے کیوں کہ عام آدمی اور بزدل شخص اس اہم ذمہ داری کو ان حالات میں قبول نہیں کر سکتا۔[1] نفس کی قربانی جب آپ کو آپ کے گھر میں محصور کر دیا گیا اور شرپسندوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ یا تو خلافت سے معزول ہو جائیں یا اپنے گورنروں اور عاملین کو معزول کر دیں، اور ان میں سے بعض کو ان کے حوالہ کر دیں ورنہ ہم ان کو قتل کریں گے۔ اس نازک وقت میں آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، نفس کی قربانی قبول کر لی لیکن خلافت کو شرپسندوں کے ہاتھ میں کھلونا بننے سے محفوظ رکھا کہ وہ جس کو چاہیں معزول کریں اور جس کو چاہیں رکھیں، اور امت نے جس کو اس عظیم عہدہ کے لیے منتخب کیا ہے اس سے یہ عہدہ چھین لیں، اور پھر یہ ہمیشہ کے لیے رسم و اصول بن جائے۔[2]اس لیے آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے حالاں کہ محاصرین کی تلواروں میں آپ اپنی موت کا مشاہدہ فرما رہے تھے، جو شخص یہ موقف اختیار کرے وہ بہادر اور صاحب حق ہی ہو سکتا ہے۔ بزدل یا دنیا دار انسان کبھی یہ موقف اختیار نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ زندگی بزدلوں کے نزدیک پوری دنیا سے افضل و بہتر ہے۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ عظیم شجاعت، بے مثال عزیمت، اور عجیب اصرار، اللہ اور یوم آخرت پر قوی ایمان کا نتیجہ تھا جو آپ کے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا، اور جس کی وجہ سے آپ اس دنیاوی زندگی کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی زندگی کو بھی حقیر جانتے تھے۔[4]
Flag Counter