Maktaba Wahhabi

262 - 534
گئے ہیں اسے انہیں واپس کر دیا جائے پھر انہوں نے اپنی وفاداری اور اطاعت کا اعلان کیا اور کہا: رومیوں نے ہمارے مال و مویشی لوٹ لیے ہیں، اور ہم نے آپ کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ مطیع رہے ہیں اس لیے ہمیں ہمارے مال و مویشی واپس دیے جائیں۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگ اپنے اپنے دعویٰ پر دلیل و ثبوت قائم کریں، جس نے ثبوت فراہم کیا اور اپنا مال پہچان لیا اس کو اس کے مال و مویشی واپس کر دیے گئے۔[1] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کی فصیل کو منہدم کر دیا، یہ واقعہ ۲۵ھ کا ہے۔فصیل کو منہدم کر دینے کے باوجود اسکندریہ چہار جانب سے محفوظ و مامون ہو گیا۔ اسکندریہ سے مشرق و جنوب پر مسلمانوں کا قبضہ تھا جب کہ مغرب کی طرف برقہ، زویلہ، اور مغربی طرابلس کو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فتح کر کے جزیہ پر مصالحت کے عوض اس جہت کو مامون بنا لیا تھا، البتہ شمال کی طرف رومی پڑتے تھے، لیکن اولاً وہ اس قدر شکست خوردہ ہو چکے تھے کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے، کیوں کہ ان کا کوئی معین و مددگار یہاں باقی نہ رہا تھا، اور پھر مسلم افواج پوری بیدار مغزی اور اہتمام کے ساتھ سمندر کی نگرانی پر لگی ہوئی تھیں۔[2] نوبہ کی فتح: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اجازت سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نوبہ کی فتح کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، لیکن آپ کو ایسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس کا مسلمانوں کو تجربہ نہ تھا اس میں تیر کے ذریعہ سے مجاہدین کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جاتا یہاں تک کہ اوّل معرکہ میں ڈیڑھ سو آنکھیں کام آگئیں، اس لیے اسلامی فوج نے مصالحت قبول کر لی، لیکن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے افضل شرائط کے حصول کے لیے صلح کو مسترد کر دیا۔[3] عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر کی ولایت سنبھالتے ہی نوبہ پر چڑھائی کر دی، یہ ۳۱ھ کا واقعہ ہے، نوبہ کے اُساود نے ڈٹ کر قتال کیا، اس دن مسلمانوں کی بہت سی آنکھیں زخمی ہوئیں، چنانچہ شاعر کہتا ہے: لم ترعین مثل یوم دمقلۃ؟ و الخیل تعد و بالدروع مثقلۃ [4] ’’آج کے دن کی طرح آنکھیں… اور گھوڑے زرہوں سے لدے ہوئے چل رہے تھے۔‘‘ نوبہ کے لوگوں نے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مصالحت طلب کی، آپ نے ان سے مصالحت کر لی اور یہ مصالحت چھ صدیوں تک قائم رہی۔[5] ان کے لیے معاہدہ تحریر فرمایا جس میں یہ تحریر کیا گیا کہ نوبہ والوں کو
Flag Counter