Maktaba Wahhabi

181 - 534
سے دور کر دے۔[1] ذرا غور کریں جزیہ کے نظام سے کس طرح کے حقوق حاصل ہوتے تھے وہ یہ کہ اس جزیہ کے عوض ان کی حمایت و حفاظت کی جاتی تھی باوجودیکہ وہ ملک کے دفاع میں مسلمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوتے تھے وہ یہ جزیہ ان حقوق کے عوض ادا کرتے تھے جو اسلامی سلطنت سے ان کو حاصل ہوتے تھے اور من جملہ ان حقوق کے، حق حمایت و حفاظت ہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کے ان حقوق کو قائم رکھا اور ان کے مال و متاع کو انہیں واپس کر دیا۔[2] ۶۔ عہد عثمانی میں حکومت کے عام اخراجات میں ذمیوں کی شرکت جزیہ سے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب دوسری مرتبہ اسکندریہ فتح کیا گیاتو اخناء کا حاکم جس کا نام ’’طلما‘‘ تھا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا: بتلایئے کہ ہم میں سے ہر فرد پر کیا جزیہ عائد ہوتا ہے اسے اس سے وصول کیا جائے؟ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کنیسہ کے ایک ستون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تم ہمارا خزانہ ہو اگر اخراجات زیادہ ہیں تو ہم تم سے زیادہ لیں گے اور اخراجات کم ہیں تو ہم تم سے کم وصول کریں گے۔ اس پر وہ ناراض ہو گیا اور جا کر رومیوں سے مل گیا اور ان سے مل کر مسلمانوں پر چڑھائی کر دی آخرکار گرفتار ہو کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا: اسے قتل کر دیں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہ آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے اس کو کنگن پہنائے اس کے سر پر تاج رکھا اور سرخ رنگ کا برنس اس کو پہنایا اور اس سے کہا: اس طرح کے لوگوں کو میرے پاس لاؤ لہٰذا وہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گیا۔ ’’طلما‘‘ سے کہا گیا: اگر تو شاہ روم کے پاس اس طرح پیش کیا جاتا تو کیا ہوتا؟ اس نے کہا: وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو قتل کر دیتا۔[3] جس وقت ہم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے اس قول ’’تم ہمارا خزانہ ہو اگر اخراجات زیادہ ہیں تو ہم تم سے زیادہ لیں گے اور اگر اخراجات کم ہیں تو کم لیں گے‘‘ کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے عہد عثمانی میں غیر مسلموں کے لیے مالی سیاست کے مندرجہ ذیل بعض اصول و مبادی سامنے آتے ہیں: ۱۔ ذمی حضرات جزیہ کی ادائیگی کے ذریعہ سے اسلامی بیت المال کے ساتھ تعاون کریں گے۔ وہ بیت المال
Flag Counter