Maktaba Wahhabi

476 - 534
بھرا ہوا تھا، ان میں ابن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی اپنی تلوار گردن میں لٹکائے ہوئے موجود تھے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سب کو قتال سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔[1] اس سے اس اتہام کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جو مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لگائی گئی ہے کہ ان حضرات نے عثمان رضی اللہ عنہ کی نصرت و مدد نہ کی اور پیچھے ہٹ گئے، اس طرح کی روایات سند و متن دونوں لحاظ سے علت قادحہ سے خالی نہیں ہیں۔[2] ۱۰۔بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ پہنچانے کی پیش کش: جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے ساتھ عدم قتال کے موقف پر مصر ہیں اور باغی آپ کو قتل کرنے پر مصر ہیں تو ان کے سامنے آپ کی حمایت کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ انہوں نے آپ سے اس بات کی پیش کش کی کہ وہ مکہ روانہ ہو جائیں اور یہ لوگ اس سلسلہ میں آپ سے پورا تعاون کریں گے، چنانچہ عبداللہ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ان حضرات نے الگ الگ یہ پیش کش آپ کے سامنے رکھی، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سب کی پیش کش کو رد کر دیا۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قتال سے روکنے کے اسباب: فتنہ بغاوت کی روایات کی روشنی میں محققین کے سامنے پانچ اسباب نمایاں ہوتے ہیں: ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل جو آپ کو چپکے سے کی تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو محاصرہ کے وقت بیان کیا تھا کہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہے، وہ اس پر صبر کریں گے۔[4] ۲۔ آپ نے فرمایا تھا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں سب سے پہلا خون بہانے والا نہیں ہو سکتا۔یعنی آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں سب سے پہلے مسلمانوں کا خون بہانے والے بنیں۔[5] ۳۔ آپ کو یہ علم تھا کہ باغی صرف آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ انہیں اور کچھ نہیں چاہیے، اس لیے آپ کو یہ بات نا پسند تھی کہ مومنوں کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کریں اور یہ بات آپ کو محبوب تھی کہ اپنی جان دے کر مومنوں کو بچا لیں۔[6]
Flag Counter