Maktaba Wahhabi

337 - 534
اپنی طرف سے ان علاقوں میں عمال اور ملازمین کی تقرری کرتے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں گورنروں کے تابع عمال بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتے، کیوں کہ فتوحات کی وجہ سے صوبوں کی حدود میں بڑی وسعت پیدا ہو چکی تھی، بڑے بڑے علاقے ان صوبوں میں شامل کر دیے گئے تھے جو اس سے قبل محدود تھے، جیسے بصرہ، کوفہ، شام وغیرہ۔ جس کی وجہ سے عمال کی تقرری اور ان کا انتظام و انصرام بہت بڑی ذمہ داری بن چکی تھی جو گورنروں کے سر تھی۔ ذمیوں کی نگہداشت: ذمیوں کی نگہداشت، ان کے عہد و پیمان کا احترام اور ان کے شرعی حقوق کی ادائیگی، ان سے ان کے فرائض کا مطالبہ، ان کے حالات کا جائزہ اور ان پر ظلم کرنے والوں سے ان کے حقوق کا حصول، اس سلسلہ میں شرعی اوامر کے مطابق گورنر کے فرائض میں سے تھا۔[1] صوبہ کے اہل حل و عقد سے مشاورت: خلفائے راشدین اہل حل و عقد صحابہ سے مشورہ کرنے کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر گامزن رہے۔ اکابرین صحابہ کا اجتماع منعقد کرتے اور مختلف امور میں ان سے مشورہ کرتے۔[2] اسی طرح اپنے گورنروں کو بھی اپنے اپنے صوبوں میں اصحاب حل و عقد سے مشورہ کرنے کا حکم دیتے اور یہ گورنروں سے مشورہ لینے کے لیے اجتماعات منعقد کرتے۔[3] صوبہ کی عمرانی ضروریات میں غور و فکر: خلفائے راشدین اور ان کے گورنروں سے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ باشندوں کی عمرانی اور زرعی ضروریات پر بھرپور توجہ دیتے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کنویں اور چشمے کھدوائے اور صرف بصرہ کے صوبہ میں نہیں بلکہ دیگر مختلف مقامات پر اس کا اہتمام کیا۔[4] صوبہ کے باشندوں کی اجتماعی پوزیشن کا تحفظ: ہمہ گیر اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر گورنر اسلام کی جملہ تعلیمات کا خیال رکھتے تھے، لیکن اس دور کے گورنر خلفائے راشدین کی تعلیمات کی روشنی میں بعض اجتماعی اعمال انجام دیتے، جن کی انجام دہی اس منصب پر فائز ہوتے ہوئے مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح خلفاء اس بات کے حریص رہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے موافق معاملہ کریں، اور گورنر اسلام میں سبقت اور شرف و منزلت کے حاملین کا احترام ملحوظ رکھیں، چنانچہ کوفہ کے گورنر نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا، اور اس میں یہ شکایت کی کہ دیہاتی اور بعد کے لوگ سابقین اسلام اور شرف
Flag Counter