Maktaba Wahhabi

186 - 534
جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے چراگاہوں کی تخصیص فرمائی تو کسی نے اعتراض نہ کیا تو جب عثمان رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کے اونٹوں اور جانوروں میں کثرت اور چرواہوں کے مابین اختلاف میں کثرت کے سبب چراگاہوں میں اضافہ کیا، تو یہ قابل اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔[1] بلکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے چراگاہوں کو جو حکومت کی تحویل میں لیا تو یہ صحابہ کے درمیان مشہور و معروف تھا کسی نے بھی اس پر نکیر نہیں کی لہٰذا یہ اجماع و اتفاق سمجھا جائے گا۔[2]چنانچہ ابن قدامہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[3] ۹۔ عہد عثمانی میں عام اخراجات کے انواع و اقسام خلیفہ کے اخراجات: عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں لیتے تھے کیوں کہ قریش میں سب سے زیادہ مال دار اور بہت بڑے تاجر تھے۔ اپنے اور اپنے اہل و عیال اور اقرباء پر اپنے مال خاص سے خرچ کرتے تھے۔ بیت المال سے گورنروں کی تنخواہ: عہد عثمانی میں اسلامی سلطنت مختلف صوبوں میں منقسم تھی، ہر صوبے کا ایک گورنر ہوتا تھا جسے خلیفہ مقرر کرتا تھا، اس کو بیت المال سے تنخواہ ملتی تھی اور وہ اسلامی شریعت کے مطابق صوبے کا انتظام و انصرام سنبھالتا تھا۔ اگر صوبے کے بیت المال پر خلیفہ کسی کو اپنا نمائندہ مقرر نہ کرتا تو گورنر ہی کے اختیار میں جزیہ و خراج اور تجارتی عشر کے وصول کی نگرانی ہوتی اور وہ پھر صوبے کی ضروریات پر اس کو خرچ کرتا اور جو زائد ہوتا اسے مدینہ میں مرکزی بیت المال کو بھیج دیتا، رہی زکوٰۃ تو اسے مال داروں سے لے کر صوبے کے فقراء پر خرچ کر دیا جاتا تھا۔[4] بیت المال سے فوج کی تنخواہ: اسلامی فوج کو مال غنیمت کے علاوہ بیت المال سے تنخواہ دی جاتی تھی چنانچہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مصری فوج کے سلسلہ میں مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا: ’’تمھیں معلوم ہے کہ امیر المومنین کو اسکندریہ کی کس قدر فکر رہتی ہے، رومی دو مرتبہ عہد توڑ چکے ہیں لہٰذا اسکندریہ میں رباط کو لازم پکڑو اور ان افواج کو تنخواہ جاری رکھو اور ہر چھ ماہ پر ان کی باری بدل دیا کرو۔‘‘[5]
Flag Counter