Maktaba Wahhabi

470 - 534
’’(جن مسلمانوں) سے (کافر جنگ کرتے ہیں) انہیں بھی مقابلہ کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔ بے شک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے، یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے، جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا، بڑے غلبے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں، تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان آیات کے شان نزول اور یہ جن کے بارے میں نازل ہوئی تھیں اور جن پر دلالت کرتی ہیں، ان سب کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو ان آیات کا صحیح مفہوم و مراد سمجھا دیا تاکہ بغیر معنی و مراد سمجھے ہوئے قرآن پڑھ کر لوگوں کو التباس میں کوئی مبتلا نہ کر سکے اور اس کے معنی و مراد کے خلاف استدلال نہ کرے۔[1] اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے جس چیز کی نفی کی وہ درحقیقت اس آیت جو صعصعہ نے پڑھی تھی کے بعد والی آیت پر عمل ہے۔ کیوں کہ یہ آیت کریمہ اس شخص کو حکم دیتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں اقتدار عطا کیا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے، آپ کی یہ ذمہ داری تھی اور جب ان لوگوں نے بعض مسلمانوں پر ظلم کیا اور فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی، تو آپ نے ان کی نفی کر کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کیا لہٰذا یہ بات ان کو اچھی نہ لگی اور عداوت پر اتر آئے۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو اپنے فضائل یاد دلانا: ان لوگوں کی تردید کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اپنا مقام و مرتبہ اور بعض فضائل یاد دلائے۔ پس جو لوگ ان فضائل کو جانتے تھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، ان سے اپیل کی کہ وہ دیگر لوگوں سے اس کو بیان کریں، چنانچہ آپ نے فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو حرا کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، اور جب پہاڑ ہلنے لگا تھا تو کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم سے اس کو مارتے ہوئے نہیں فرمایا تھا: اے حرا تو ٹھہر جا! تیرے اوپر یا تو نبی ہے یا صدیق یا شہید، اور میں اس وقت آپ کے ساتھ تھا؟ تو لوگوں نے اس کی شہادت دی۔ پھر فرمایا: میں ان حضرات کو اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جو بیعت رضوان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے مشرکین کے پاس بھیج دیا، اور صحابہ سے بیعت لی تو آپ نے اپنے
Flag Counter