Maktaba Wahhabi

73 - 534
’’جو بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے عام کر دے اس کو جنت میں اس سے بہتر ملے گا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من حفر بئر رومۃ فلہ الجنۃ۔))[1] ’’جو بئر رومہ کو کھودے اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل رومہ کا پانی لوگ خرید کر پیا کرتے تھے۔ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انہیں پانی کی ضرورت پڑی۔ بنی غفار میں سے ایک شخص کے پاس پانی کا ایک چشمہ تھا، جس کو رومہ کہا جاتا تھا، اور وہ ایک مشک ایک مد میں بیچتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ((تبیعہا بعین فی الجنۃ۔)) کیا تم اس کو جنتی چشمے کے عوض بیچو گے؟‘‘ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے اور میری اولاد کے لیے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، یہ بات جب عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار درہم میں خرید لیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: کیا مجھے بھی وہی ملے گا جو آپ نے اس شخص کے لیے فرمایا تھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اس کو مسلمانوں کے لیے عام کر دیا ہے۔[2]یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک یہودی کا کنواں تھا جس کا پانی وہ مسلمانوں کو بیچتا تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر غنی و فقیر اور مسافر سب کے لیے عام کر دیا۔[3] ۲۔ مسجد نبوی کی توسیع: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر مدینہ میں فرمائی تو مسلمان پنج وقتہ نماز اور خطبہ جمعہ سننے کے لیے جمع ہونے لگے، جس کے اندر انہیں اوامرو نواہی دیے جاتے تھے، اور اسی مسجد میں دین کی تعلیم کرتے اور یہیں سے تیار ہو کر غزوات کے لیے روانہ ہوتے۔ اس طرح مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو رغبت دلائی کہ مسجد کے بغل میں ایک قطعہ ارض خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دیں تاکہ مسجد کی توسیع کر دی جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من یشتری بقعۃ آل فلان فیزیدہا فی المسجد بخیر لہ منہا فی الجنۃ۔)) ’’کون ہے جو فلاں کی زمین خرید کر مسجد میں اضافہ کر دے جس کو جنت میں اس سے بہترین جگہ ملے؟‘‘ یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مال میں سے [4] پچیس یا بیس ہزار درہم دے کر خرید لیا، پھر وہ جگہ مسجد نبوی میں شامل کر دی گئی۔[5]
Flag Counter