Maktaba Wahhabi

332 - 534
عمال اورو گورنروں کی تنخواہیں مقرر ہوتی تھیں۔ اکثر روایات جو اس موضوع سے متعلق وارد ہیں ان میں خاص کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کا تذکرہ ملتا ہے، چنانچہ ان میں بعض گورنروں کی تنخواہ کی مقدار مذکور ہے۔ عثمان و علی رضی اللہ عنہما عمال اور گورنروں کی تنخواہوں سے متعلق ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر قائم رہے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بظاہر لوگوں کے وظائف و عطیات میں کافی توسع رہا عمال و گورنر بھی ان میں شامل تھے، کیوں کہ آپ کے دور خلافت میں فتوحات میں وسعت کی وجہ سے بیت المال کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا، آپ کے گورنروں نے مشرقِ آرمینیہ اور افریقہ وغیرہ میں کافی فتوحات کیں۔ آپ گورنروں کو ان کی خصوصی اور نمایاں خدمات کا صلہ اور معاوضہ عطا کرتے تھے، چنانچہ آپ نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو شمالی افریقہ کی فتح کے صلہ میں مال غنیمت کے خمس کا پانچواں حصہ عطا کیا اور ان کو اس اہم مہم پر روانہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمھیں افریقہ پر فتح عطا فرمائی تو مسلمانوں کو اس سے جو مال غنیمت حاصل ہو گا تو اس کے خمس کا پانچواں حصہ تمھیں عطا کروں گا۔[1] بہر حال عمال و گورنروں کو تنخواہیں اور وظائف دینا اور انہیں لوگوں سے بے نیاز کرنا ایک اسلامی اصول و مبدا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا تھا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ لوگوں کے اموال سے اپنے عمال و گورنروں کو بے نیاز کر دیا، اور حکومت کے مصالح اور ان کی ڈیوٹی کی کما حقہ ادائیگی کے لیے ان کو فارغ کر دیا۔[2] گورنروں کے فرائض ۱۔ اقامت دین: لوگوں میں اسلام کی نشر و اشاعت: …یہ دور عظیم فتوحات کی وجہ سے امتیازی حیثیت کا حامل رہا ہے، ایسی صورت میں گورنروں کی یہ ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ ملک کے اندر دین کی نشر و اشاعت موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعاون سے کریں، چنانچہ فتوحات کے آغاز میں عہد صدیقی کے اندر یہ ذمہ داری گورنر حضرات اپنے معاونین کے تعاون سے کرتے رہے، پھر عہد فاروقی میں جب شہر بسائے گئے اور سلطنت میں وسعت ہوئی تو علماء و معلّمین اس مقصد کے لیے مقرر کیے گئے، اور عہد فاروقی کے آخر میں اس مقصد کے لیے علماء و معلّمین کی تقرری میں زور آیا کیوں کہ شہروں کی آبادیاں بڑھ گئیں، اور طلبہ میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا، اور گورنر اور امراء دیگر ملکی اور جہادی و انتظامی امور میں مشغول ہو گئے، صوبوں میں وسعت آگئی، ایک صوبہ کے تحت کئی ایک شہر تابع کر دیے گئے، ہر جگہ لوگوں کو علماء فقہاء و معلّمین کی ضرورت پیش آنے لگی۔[3]
Flag Counter