Maktaba Wahhabi

152 - 534
٭ مال کی قربانی: جہاد بالنفس، جہاد بالمال کے ساتھ لگا ہوا ہے، اور بسا اوقات جہاد بالمال کو جہاد بالنفس پر مقدم رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (95) (النساء: ۹۵) ’’اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجات میں فضیلت دے رکھی ہے، اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے، لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔‘‘ بہت سی آیات کے اندر مال کو جان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے لہٰذا جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے وہ مجاہد اور بہادر ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں بہت کچھ خرچ کیا ہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آپ سے خوش ہو کر فرمایا: ((ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم۔))[1] ’’آج کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ بہادر تھے موت سے بالکل نہیں ڈرتے تھے، انتہائی جری تھے، باطل کا کھلے چیلنج کے ساتھ مقابلہ کرتے، انتہائی حلیم و بردبار تھے۔ کسی بے وقوف ترین انسان پر بھی یہ مخفی نہیں۔[2] دور اندیشی: دور اندیشی کی صفت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا جزو لاینفک تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو اسلام کی دعوت دی اس وقت فرمایا: اے عثمان آپ دور اندیش انسان ہیں، آپ پر یہ مخفی نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، یہ بت کیا ہیں جن کی ہماری قوم عبادت کرتی ہے۔[3]اور جب ۲۶ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام میں توسیع فرمائی تو اس کے لیے آپ نے مسجد حرام سے متصل املاک لوگوں سے خریدیں، کچھ لوگوں نے دینے سے انکار کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر قبضہ کیا اور اس کی قیمت بیت المال میں جمع کر دی،
Flag Counter