Maktaba Wahhabi

91 - 534
(۱) ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا استخلاف استخلاف سے متعلق فقہ عمری: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وحدت امت اور اس کے مستقبل کی فکر برابر دامن گیر تھی۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحات میں بھی جب کہ آپ گہرے زخموں کے آلام سے چور تھے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ناقابل فراموش لمحات ہوتے ہیں، لیکن اس میں فاروق رضی اللہ عنہ کا ایمان عمیق اور اخلاص و ایثار روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے۔[1]ان نازک لمحات میں فاروق رضی اللہ عنہ نے جدید خلیفہ کے انتخاب کا نیا طریقہ ایجاد کیا جس کی مثال سابق میں نہیں ملتی، اور جو اسلامی سلطنت کی سیاست میں آپ کی فقہ و فراست کی واضح علامت اور دلیل ہے۔ آپ سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد نص صریح سے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں فرمایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا اور جب فاروق رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب کہ آپ بستر مرگ پر تھے خلیفہ کی نامزدگی کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے اولاً اس سلسلہ میں غور و فکر کیا، اور یہ فیصلہ کیا کہ ایسا اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو حالات کے مناسب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی تھی اس وقت سب ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور اسبقیت کے معترف تھے۔ اس وقت اختلاف کا احتمال نادر تھا، اور خاص کر جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت کی رہنمائی فرما دی تھی کہ آپ کے بعد خلافت کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ مستحق ہیں۔اور جس وقت صدیق نے عمر رضی اللہ عنہما کو خلافت کے لیے نامرد کیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات پر یقین و اطمینان حاصل ہے کہ آپ کے بعد خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے سب سے افضل و قوی عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اسی لیے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کر کے عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور دے دی، اور کسی نے بھی ان کی اس رائے کی مخالفت نہ کی، اور عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت پر اجماع ہو گیا۔[2] لیکن جدید خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ شوریٰ کو مخصوص تعداد میں محصور کر دیا گیا، اور چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے لیے خاص کر دیا گیا، جن میں سے ہر ایک خلافت کے لیے مناسب و موزوں تھا اگرچہ
Flag Counter