Maktaba Wahhabi

259 - 534
(۳) مصری محاذ کی فتوحات اسکندریہ میں باغیوں کی سرکوبی: اسکندریہ جب رومیوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمان اس پر قابض ہو گئے تو یہ رومیوں پر بہت گراں گزرا وہ برابر اس کو اپنے قبضہ میں لانے کی کوششیں کرتے رہے اور اسکندریہ کے باشندوں کو بغاوت پر ابھارنے لگے کیوں کہ رومیوں کا یہ عقیدہ بن چکا تھا کہ اسکندریہ کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ان کے استقرار و وجود کو خطرہ ہے۔[1] رومیوں کا ورغلانا اور اشتعال دلانا اسکندریہ کے رومی باشندوں کی خواہشات نفس کے عین مطابق ثابت ہوا، اور اس طرح انہوں نے ان کی بغاوت کی دعوت قبول کر لی، اور قسطنطین بن ہرقل کو تحریر بھیجی جس میں مسلمانوں کی قلت تعداد اور اسکندریہ میں آباد رومیوں کی ذلت و رسوائی کا تذکرہ کیا۔[2] اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ مصر سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مقرر کر چکے تھے۔ اسی دوران رومیوں کا کمانڈر ان چیف ’’منویل خصی‘‘ نے اسکندریہ کا رخ کیا تاکہ اس کو مسلمانوں سے واپس لے، اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر تین سو کشتیوں میں پورے جنگی سازو سامان کے ساتھ اسکندریہ پہنچا۔[3] اہل مصر کو خبر ملی کہ رومی فوج اسکندریہ پہنچ چکی ہے انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو لکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو واپس ان کی جگہ پر بحال کیا جائے تاکہ رومیوں کا مقابلہ کیا جا سکے، کیوں کہ انہیں اس کا طویل تجربہ ہے اور رومیوں کے دلوں میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ہیبت سمائی ہوئی ہے۔ اہل مصر کے اس مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت پر بحال کر دیا۔[4] منویل کی فوج نے اسکندریہ میں خوب لوٹ مار مچائی، اور اس کو زمین دوز کر کے اس کے ارد گرد بستیوں میں ظلم و فساد برپا کر دیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈھیل دے دی تاکہ جس قدر فساد کرنا چاہیں کر لیں، اور مصریوں کے سامنے مسلم حکمرانوں اور رومی حکمرانوں کے درمیان فرق بھی سمجھ میں آجائے، نیز ان کے دلوں میں
Flag Counter